مسعود مرحوم
(Armaghan-e-Hijaz-07)
Masood Marhoom
(مسعود مرحوم)
The Late Masud
کسے خبر کہ یہ عالم عدم ہے یا کہ وجود
معانی: یہ نظم علامہ نے برصغیر کے مسلمانوں کے مشہور مصلح راہنما اور ادیب سر سید احمد خان کے پوتے اور جسٹس محمود مرحوم کے بیٹے ڈاکٹر سر راس مسعود کی وفات پر لکھی تھی جو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور ریاست بھوپال کے وزیر تعلیم بھی رہے تھے ۔ مرحوم، علامہ سے بے پناہ عقیدت رکھتے تھے ۔ علامہ ان کی وجہ سے ہی ریاست بھوپال میں جا کر شاہی مہمان کے طور پر کچھ عرصہ ٹھہرے تھے جب وہ وفات پا گئے تو علامہ نے یہ نظم ان کے مرثیہ کے طور پر لکھی تھی ۔
معانی: مہر: سورج ۔ ماہ: چاند ۔ چرخ کبود: نیلا آسمان ۔ عدم: نیستی، نہ ہونا ۔ وجود: ہستی، ہونا ۔ عالم: جہان، دنیا ۔
مطلب: یہ سورج، یہ چاند، یہ نیلا آسمان اور جہان کی دوسری اشیا بہ ظاہر تو اپنا وجود رکھتی ہیں ۔ دیکھنے میں تو ہست ہیں یعنی ہیں لیکن حقیقت ان کی کیا ہے کیا یہ عالم واقعی موجود ہے یا ہمارے دیکھنے یا سمجھنے میں وجود رکھتا ہے اور حقیقت میں نیست ہے یعنی نہیں ہے ۔
—————————-
خیالِ جادہ و منزل، فسانہ و افسوں
کہ زندگی ہے سراپا رحیلِ بے مقصود
معانی: جادہ: راستہ ۔ منزل: پہنچنے کی جگہ ۔ فسانہ: خیالی کہانی ۔ افسوں : جادو ۔ سراپا: بالکل ۔ رحیل بے مقصود: بے مقصد سفر ۔
مطلب: اس دنیا کے سفر میں ہر مسافر زندگی کے راستہ پر چلتا ہے اور ایک مقررہ منزل پر جا کر جسے موت کہتے ہیں اس کا سفر ختم ہو جاتا ہے ۔ میں تو سمجھتا ہوں کہ راستہ اور منزل کا خیال بے حقیقت کہانی اور جادو کی طرح ہے جس میں فریب نظر کی وجہ سے کوئی چیز موجود تو نظر آتی ہے لیکن حقیقت میں نہیں ہوتی ۔ جب یہ سب کچھ بے حقیقت ہے اور ہر شے کے سفر کا انجام موت ہی ہے تو پھر یہ زندگی انسان اور اس زندگی کی پیدائش سے موت تک کا سفر ایک بے مقصد سفر نظر آتا ہے ۔
—————————-
رہی نہ آہ زمانے کے ہاتھ سے باقی
وہ یادگارِ کمالاتِ احمد و محمود
معانی: آہ: افسوس ہے ۔ کمالات: انتہائی حد تک کی صفات، اعلیٰ صفات ۔ احمد: سر سید احمد خان مرحوم جو برصغیر کے مسلمانوں کے عظیم رہنما اورر مصلح تھے ۔ محمود: جسٹس محمود جو سرسید احمد خان کے بیٹے اور سر راس مسعود کے باپ تھے ۔
مطلب: افسوس ہے زمانے کے ہاتھوں نے جہاں اور چیزوں کو نیست و نابود کیا ہے جسٹس سر راس مسعود کو بھی موت کی آغوش میں دے دیا ہے وہ راس مسعود جو اپنے دادا سر سید احمد خان اور اپنے باپ جسٹس محمود خان کی اعلیٰ صفات کی یادگار تھے یعنی جن میں اپنے باپ دادا کی انتہا درجے کی صفات موجود تھیں اور جن کو دیکھ کر ان کے باپ دادا یاد آگے تھے ۔
—————————-
زوالِ علم و ہنر مرگِ ناگہاں اس کی
وہ کارواں کا متاعِ گراں بہا، مسعود
معانی: زوال: کمی، پستی ۔ علم وہنر: علم اور فن ۔ مرگ ناگہاں : اچانک موت ۔ کارواں : قافلہ ۔ متاع گراں بہا: بیش قیمت دولت ۔ متاع: دولت ۔
مطلب: سر راس مسعود زندگی کے قافلے کی بیش قیمت یعنی بہت بڑی قیمت رکھنے والے دولت کی مانند تھے جس کو موت کے لٹیروں نے لوٹ لیا ۔ ان کی اچانک موت سے اب علم اور فن پستی میں چلے جائیں گے ۔ علم اور فن کے میدان میں ایسے صاحب کمال کا نہ ہونا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اب یہ میدان بے رونق ہو جائے گا ۔
—————————-
مجھے رلاتی ہے اہلِ جہاں کی بیدردی
فغانِ مرغِ سحر خواں کو جانتے ہیں سرود
معانی: اہل جہاں : دنیا والے ۔ بے دردی ۔ درد کا نہ ہونا، خلش کا نہ ہونا ۔ فغاں : فریاد ۔ مرغ سحرخواں : علی الصبح چہچہانے والا پرندہ ۔ سرود: گانا ۔
مطلب: یہ دنیا والے بھی کتنے بے رحم ہیں ۔ کسی کے دکھ، تکلیف اور رنج کو دیکھ کر ان میں کوئی خلش پیدا نہیں ہوتی ۔ ان کی مثال تو اس شخص کی سی ہے جو علی الصبح باغ میں فریاد کرنے والے بلبل کی آواز کو گانا سمجھتا ہے حالانکہ وہ پرندہ اپنے غم، درد اور دکھ کی کہانی بیان کر رہا ہوتا ہے ۔ دنیا والوں کی اس بے رحمی پر علامہ کہتے ہیں کہ میں رو رہا ہوں ۔
—————————-
نہ کہہ کہ صبر میں پنہاں ہے چارہَ غمِ دوست
نہ کہہ کہ صبر معمائے موت کی ہے کشود
معانی: صبر: دکھ اور تکلیف کی برداشت ۔ چارہ: علاج ۔ غم دوست: دوست کی موت کا غم ۔ معمائے موت: موت کا گورکھ دھندا ۔ کشود: کھولنا، حل ۔
مطلب: کسی کو غم زدہ دیکھ یا اسے کسی کی موت پر روتا دیکھ کر وہ لوگ جو اس غم کی کیفیت سے گزرے ہوئے نہیں ہوتے اس کو غم برداشت کرنے اور اپنے اندر حوصلہ پیدا کر نے کی نصیحت کیا کرتے ہیں ۔ اقبال کہتے ہیں کہ اس نصیحت سے غم زدہ کی تسکین نہیں ہوتی ۔ کسی دوست کے بچھڑ جانے اورمر جانے کا غم اس نصیحت سے کم نہیں ہوتا موت کیا چیز ہے ۔ یہ کیا عقدہ اور کیا گورکھ دھندا ہے صبر کی تلقین سے یہ بھی حل نہیں ہوتا ۔ اس لیے مجھے صبر کے لیے نہ کہو ۔ مجھ سے ایسا نہیں ہو سکے گا ۔
—————————-
دلے کہ عاشق و صابر بود مگر سنگ است
ز عشق تا بہ صبوری ہزار فرسنگ است
معانی:دلے کہ: وہ دل جو ۔ عاشق و صابر: عشق کرنے والا اور صبر کرنے والا ۔ سنگ: پتھر ۔ مگر; شاید ۔ بود: ہوتا ہے ۔ ز عشق: عشق سے ۔ تا: تک ۔ تابہ صبوری: صبر تک ۔ ہزار فرسنگ: ہزار کوس ۔ است: ہے ۔ ز: سے ۔
مطلب: یہاں صبر اور غم کے تعلق کو مزید واضح کرنے کے لیے علامہ نے مشہور فارسی شاعر شیخ سعدی کا ایک شعر دیا ہے ۔ جس کے معنی ہیں کہ وہ دل جو عاشق بھی ہو اور غم عشق میں صبر بھی کر سکتا ہو وہ پتھر تو ہو سکتا ہے دل نہیں ہو سکتا کیونکہ عشق اور صبر تک ہزار کوس کا فاصلہ ہے ۔ دونوں کا یکجا جمع ہونا ممکن نہیں ۔
—————————-
نہ مجھ سے پوچھ کہ عمرِ گریز پا کیا ہے
کسے خبر کہ یہ نیرنگ و سیمیا کیا ہے
معانی : نہ مجھ سے پوچھ: مجھ سے مت معلوم کر، مت سوال کر ۔ عمر گریز پا: تیزی سے گزر جانے والی عمر ۔ نیرنگ: شعبدہ ۔ سیمیا: جادو کا ایک علم جس کے ذریعے سے ایک روح کو دوسرے جسم میں منتقل کر سکتے ہیں اور لوگوں کے سامنے ایسی اشیا لا سکتے ہیں جن کا کوئی وجود نہ ہو ۔
مطلب: مجھ سے سوال نہ کر کہ یہ جلدی سے گزر جانے والی انسانی زندگی کیا ہے ۔ کوئی بھی اس کی حقیقت سے باخبر نہیں یہ تو کوئی شعبدہ اور جادو کا ایسا کھیل نظر آتا ہے جس میں نظر فریبی سے کام لے کر بے حقیقت چیز کو حقیقت کے رنگ میں د کھایا جاتا ہے ۔
—————————-
ہوا جو خاک سے پیدا، وہ خاک میں مستور
مگر یہ غیبتِ صغریٰ ہے یا فنا کیا ہے
معانی: خاک: مٹی ۔ مستور: چھپ جانا ۔ فنا: ہمیشہ کے لیے ختم ہو جانا ۔ غیبت صغریٰ: ایک مذہبی اصلاح ہے جس سے مراد عارضی چھپنا ہے ۔
مطلب: یہ تو صاف ظاہر ہے کہ جو آدمی مٹی سے پیدا ہوا ہے وہ مر کر مٹی میں چلا جاتا ہے لیکن اس کا یہ رویہ مٹی میں جا کر چھپ جانا کیا عارضی ہے یا وہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو جاتا ہے ۔
—————————-
غبارِ راہ کو بخشا گیا ہے ذوقِ جمال
خرد بتا نہیں سکتی کہ مدعا کیا ہے
معانی: غبار راہ: راستے کی گرد ۔ بخشا گیا ہے: عطا کیا گیا ہے ۔ ذوق جمال: حسن کا ذوق ۔ خرد: عقل ۔ مدعا : مقصد ۔
مطلب: بے شک آدمی راستے کی گرد کی مانند ہے کہ پیدا ہو کر فنا ہو جاتا ہے لیکن اس کی یہ فنا عارضی ہے ۔ خالق نے اس کے اندر اپنے خالق کے حسن کو دیکھنے کا ذوق رکھا ہوا ہے جو اسے موت کے بعد بھی زندگی عطا کر دیتا ہے ۔ عقل اس بات کو نہیں پا سکتی اور نہیں بتا سکتی کہ اس میں حسن ازلی کے دیدار کا جذبہ کیوں رکھا گیا ہے ۔
—————————-
دل و نظر بھی اسی آب و گل کے ہیں اعجاز
نہیں ، تو حضرتِ انساں کی انتہا کیا ہے
معانی: آب و گل: پانی اور مٹی ۔ اعجاز: معجزہ دکھانا، ایسا کام کرنا جس کو سمجھنے اور کرنے سے انسانی عقل عاجز ہو ۔ حضرت انساں : آدمی ۔ انتہا: آخری حد، درجہ کمال ۔
مطلب: آدمی کے اندر خالق نے دل اور نظر جیسی جو اشیا رکھی ہوئی ہیں کیا وہ بھی اسی پانی اور مٹی کے معجزے ہیں اگر ایسا نہیں ہے تو آدمی کا درجہ کمال یا حد کیا ہے مراد ہے دل و نظر مادی ذرات سے نہیں کسی اور شے سے تخلیق کئے گئے ہیں ۔
—————————-
جہاں کی روحِ رواں لا الہ الا ھو
مسیح و میخ و چلیپا یہ ماجرا کیا ہے
معانی: روح رواں : جاری روح ۔ لا الہ الا ھو: اس کے سوا یعنی اللہ کے سوا کوئی الہ یعنی معبود نہیں ۔ مسیح: حضرت عیسیٰ علیہ السلام ۔ میخ: لمبی کیل جو آدمی کو سولی پر چڑھاتے وقت اس کے ہاتھوں میں گاڑ دی جاتی ہے ۔ چلیپا: سولی ۔ ماجرا کیا ہے: کیا کہانی ہے ۔
مطلب: اگر یہ بات درست ہے کہ اس جہان میں لا الہ الا ھو کی روح جاری ہے اور ہر شے اللہ کی صفات کی وجہ سے قائم ہے اور اس کا مظہر ہے تو پھر یہ جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو صلیب پر لٹکایا گیا اور اسکے ہاتھوں میں کیلیں ٹھونک کر ان کو صلیب کی لکڑی کے ساتھ باندھا گیا یہ سب کچھ کیا ہے اس کا ذمہ دار کون ہے ۔
—————————-
قصاص، خونِ تمنا کا مانگیے کس سے
گناہگار ہے کون اور خوں بہا کیا ہے
معانی: قصاص: خون کا بدلہ ۔ خون تمنا: آرزو کا خون، آرزو کا پورا نہ ہونا ۔ خون بہا: خون کی قیمت، جان کا معاوضہ ۔
مطلب: اس دنیا میں آدمی کی ہزاروں آرزووَں کا خون ہوتا ہے اور وہ پوری نہیں ہوتیں ۔ آخر ایسا کیوں ہوتا ہے اور کون کرتا ہے ۔ اس کے لیے کس کو گناہ گار ٹھہرایا جائے ۔ کس سے اس خون کا بدلہ مانگا جائے یا بدلہ نہیں تو قیمت وصول کی جائے ۔
—————————-
غمیں مشو کہ بہ بندِ جہاں گرفتاریم
طلسم ہا شکند آں دلے ما داریم
معانی : غمیں مشو: غم مت کر ۔ بند جہاں : جہان کی قید ۔ گرفتاریم: ہم گرفتار ہیں ۔ طلسمہا: طلسم کی جمع، جادو ۔ شکند: توڑ دیتا ہے ۔ آں دلے کہ : وہ دل کہ ۔ ماداریم: رکھتے ہیں ۔
مطلب: مذکورہ بالا اشعار میں علامہ نے زندگی و موت کے متعلق جو استفہامی انداز میں گفتگو کی ہے اور اس معما کے عقل سے حل نہ ہونے کا ذکر کیا ہے وہاں آدمی کے مٹی سے بننے اور مٹی میں جانے کا ذکر بھی ہے ۔ اس ذکر کے دوران جو اہم راز کی بات انھوں نے کی ہے وہ یہ ہے کہ جسم تو بے شک مٹی کا ہے لیکن اس کے اندر جو دل اور نظر کی قوتیں اور صلاحتیں رکھی گئی ہیں ان کا تعلق مٹی سے نہیں ہے ۔ ان میں ذوق جمال پیدا کیا گیا ہے ۔ اس ذوق کی وجہ سے دل اور نظر جب دونوں باطنی طور پر بینا بن جاتے ہیں تو وہ معما حل کر دیتے ہیں جس کا ذکر مذکورہ بالا اشعار میں ہوا ہے ۔ اس پس منظر میں علامہ کہتے ہیں کہ اس کا غم مت کرو کہ ہم جہان کی قید اور پابندیوں میں گرفتار ہیں وہ دل جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے جسم خاکی کے اندر رکھا ہے اگر ذوق جمال سے باطنی طور پر ہر شے کو دیکھنے والا بن جائے تو یہ جادو ٹوٹ جاتا ہے اور موت و حیات، جسم و روح، عقل و عشق ، قلب و نظر وغیرہ کے جملہ معمے حل ہو جاتے ہیں ۔
—————————-
خودی ہے زندہ تو ہے موت اک مقامِ حیات
کہ عشق موت سے کرتا ہے امتحانِ ثبات
معانی: مقامِ خودی: اپنی معرفت کا مرتبہ ۔ حیات: زندگی ۔ عشق: انتہائی محبت، آدمی کے دل کا ایک ایسا جذبہ جس کے تحت اسے سوائے اس شخص یا مقصد کے جس سے وہ محبت کرتا ہے کچھ نہیں سوجھتا ۔ ثبات: استحکام، مضبوطی، پائداری ۔
مطلب: اگر آدمی کے پاس ایسا دل ہے جو عشق سے زندہ ہے اور اس جذبہ کی بنا پر اسے اپنی معرفت یا اپنی پہچان حاصل ہے تو اسے معلوم ہے کہ میں کون ہوں اور کیا ہوں میری کیا قدر و قیمت ہے مجھ میں اللہ تعالیٰ نے کیا کیا صفتیں اور صلاحیتیں رکھی ہیں ایسی صورت میں موت بھی زندگی کے برابر ہے موت کا مرحلہ تو صاحب خودی کے عشق کا امتحان ہوتا ہے جس سے اس کے جذبہ کے استحکام اور مضبوطی کا پتہ چلتا ہے اس کا عشق اگر مستحکم ہو گا اور اس کی وجہ سے اس کی خودی بھی اگر مضبوط ہو گی تو پھر وہ یہ امتحان دینے کے لیے تیار رہے گا اور اس سے گزر کر ایک نئی زندگی کی منزل میں داخل ہو جائے گا ۔
—————————-
خودی ہے زندہ تو دریا ہے بیکرانہ ترا
ترے فراق میں مضطر ہے موجِ نیل و فرات
معانی: خودی: اپنی معرفت ۔ بے کرانہ: جس کا کوئی کنارہ نہ ہو ۔ فراق: جدائی ۔ مضطر: بے قرار ۔ موج: لہر ۔ نیل و فرات: نیل ملک مصر کا ایک دریا اور فرات ملک عراق کا ایک دریا ۔
مطلب: اگر تیری خودی زندہ ہے اور تجھے اپنی معرفت حاصل ہے تو تیری زندگی اس دریا کی مانند ہے جس کا کوئی کنارہ نہ ہو ۔ اس لیے وہ موت جو دریائے زندگی کے ایک کنارہ کی صور ت ہوتی ہے صاحب خودی کو پیش نہیں آتی ۔ اس کے لیے تو یہ عمل دریائے زندگی کو موت کے بعد کی زندگی کے دریاؤں کے ساتھ ملانے کے لیے ہوتی ہے نہ کہ اس کے خاتمے کے لیے ۔ علامہ نے دنیا کی زندگی کو بطور دریا اورر موت کے بعد کی زندگی کو نیل اور فرات کے دریاؤں کی علامتون میں بیان کیا ہے ۔
—————————-
خودی ہے مُردہ تو مانندِ کاہ پیشِ نسیم
خودی ہے زندہ تو سلطانِ جملہ موجودات
معانی: خودی: اپنی پہچان ۔ مردہ: مری ہوئی ۔ مانند: مثل ۔ پیش: سامنے ۔ کاہ: تنکا ۔ نسیم: نرم و لطیف ہوا ۔ سلطان: بادشاہ ۔ جملہ: تمام ۔ موجودات: جو کچھ کائنات میں موجود ہے ۔
مطلب: اگر تیری خودی مر چکی ہے تو تیری حیثیت اس گھاس کے تنکے کی طرح ہے جس کا نرم و لطیف ہوا بھی اڑا کر لے جاتی ہے یعنی صورت میں تو حوادث جملہ کے آگے ٹھہر نہیں سکے گا موت بھی تجھے نگل جائے گی ۔ اگر تیری خودی زندہ ہے تو پھر موت سمیت کائنات میں جو کچھ موجود ہے تیرے تابع ہو گا ۔ تو ان پر حکمران ہو گا ۔ موت تیرا کچھ نہیں بگاڑ سکے گی اور تو مر کر بھی زندہ رہے گا ۔
—————————-
نگاہ ایک تجلی سے ہے اگر محروم
دو صد ہزار تجلی تلافیِ مافات
معانی: نگاہ: نظر ۔ محروم: بے نصیب ۔ دو صد ہزار تجلی: دو سو ہزار تجلیاں ۔ تلافی مافات: کوئی چیز یا بات جو فوت ہو گئی ہو اس کی جگہ کسی دوسری چیز یا بات کا آجا جو اس نقصان کو پورا کر دے، نقصان کا عوض یا بدلہ ۔
مطلب: اگر تیری نظر ایک جلوہ سے بے نصیب رہی ہے تو فکر نہ کر اس نقصان کے بدلے میں سو ہزار تجلیاں موجود ہیں ۔ ضرورت جذبہ طلب کے باقی رہنے کی ہے ۔ اللہ کی تجلی تو ہر لمحہ ہر شے پر ہو رہی ہے اگر تیری خودی زندہ ہو جائے تو اس کا نظارہ کرنا تیرے لیے مشکل نہیں ہے ۔
—————————-
مقام بندہَ مومن کا ہے ورائے سپہر
زمیں سے تا بہ ثریا تمام لات و منات
معانی: بندہَ ایمان: صاح ایمان ۔ ورائے سپہر: آسمان سے آگے ۔ ثریا : وہ چھ ستارے جو ایک گچھے کی شکل میں زمین سے بہت دور آسمان پر ہیں ۔ لا ت و منات: اسلام سے پہلے کعبہ میں کفار کی طرف سے رکھے ہوئے بتوں میں سے دو بتوں کے نام ۔
مطلب: جو شخص صحیح معنوں میں صاحب ایمان ہے اس کا مقام آسمان سے بہت آگے ہے ۔ زمین سے لے کر آسمان کی بلندی پر چمکنے والے چھ ستاروں کے گچھے بنا ثریا کے درمیان جو کچھ ہے وہ اس کے لیے بتوں کا درجہ رکھتا ہے ۔ اس کا دل اس میں نہیں اٹکتا ۔ وہ زمین پر رہتے ہوئے آسمان سے آگے کسی جہان سے وابستہ ہوتا ہے ۔
—————————-
حریمِ ذات ہے اس کا نشیمنِ ابدی
نہ تیرہ خاک لحد ہے، نہ جلوہ گاہِ صفات
معانی: حریم ذات: اللہ تعالیٰ کی منزل، وہ مقام الوہیت جو انسانی عقل سے ماورا ہے، اللہ کا گھر ۔ نشیمن ابدی: ہمیشہ رہنے کی جگہ ۔ نشیمن: آشیانہ ۔ تیرہ خاک لحد: قبر کی تاریک مٹی ۔ تیرہ: تاریک ۔ لحد: قبر ۔ ابدی: ہمیشہ: جلوہ گاہ صفات: اللہ تعالیٰ کی صفتوں کی جلوہ گاہ یعنی یہ کائنات جن میں یہ صفات جاری و ساری ہیں ۔
مطلب: مومن کا ہمیشہ رہنے کا ٹھکانا تو اللہ تعالیٰ کی ذات کا گھر ہے نہ کہ قبر کی تاریک مٹی یا اللہ تعالیٰ کی صفات کا مظہر کائنات ۔ مراد ہے موت کا مقصود صرف ذات باری تعالیٰ ہے باقی جو کچھ ہے اس کے لیے بت کدہ کی حیثیت رکھتا ہے ۔
—————————-
خود آگہاں کہ ازیں خاک داں بروں جستند
طلسمِ مہر و سپہر و ستارہ بشکستند
معانی: خود آگہاں : اپنے آپ سے آگاہ، اپنی حقیقت پہچاننے والے ۔ کہ ازیں : کہ جو اس سے ۔ خاکداں : مٹی کا گھر، انسانی جسم، دنیا ۔ بروں : باہر ۔ جستند: چھلانگ لگا گئے ہیں ۔ طلسم: جادو ۔ مہر: سورج ۔ سپہر : آسمان ۔ بشکستند: توڑ ڈالا ۔
مطلب: وہ لوگ جو خود آگاہ ہیں جنھوں نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان کے بعد اپنی معرفت حاصل کر لی ہے اور اس طرح اس مٹی اور کوڑا پھینکنے والی جگہ یعنی دنیا سے باہر نکل گئے ہیں انھوں نے سورج، آسمان اور ستارہ کے جادو کو توڑ دیا ہے ۔ یعنی ان سے بلند اللہ تعالیٰ کی ذات سے متعلق ہو گئے ہیں اور غیر اللہ کی چمک دمک اور بلندی سے مرعوب نہیں ہوئے ۔ یہ لوگ زمین پر رہتے ہوئے اور عملی زندگی میں قدم رکھتے ہوئے ہر اس چیز سے بلند و بالا رہتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی ذات سے متعلق ہونے سے روکتی ہے ۔ وہ خاکی ہوتے ہوئے نوری نہاد اور بندہ ہوتے ہوئے مولا صفات ہوتے ہیں ۔
—————————-
Transition
________________________
Translation
If the self is alive, you are the sultan of all existence.