علامہ اقبال شاعریبال جبریل (حصہ اول)

اثر کرے نہ کرے ، سن تو لے مری فرياد

اثر کرے نہ کرے سُن تو لے مری فریاد
نہیں ہے داد کا طالب یہ بندہَ آزاد

معانی: مری فریاد: شکایت ۔ داد: شاباش ۔ طالب: خواہشمند ۔
مطلب: مولائے کائنات! یہ امر تو اپنی جگہ کہ میری فریاد میں اثر ہے یا نہیں تاہم اس کو سننے میں تو کوئی قباحت نہیں ہونی چاہیے کہ میں تو ان افراد میں سے ہوں جو داد کا طلب گار ہونے کے بجائے اس نوع کے جھمیلوں سے آزاد ہوتے ہیں ۔

یہ مشتِ خاک، یہ صرصر، یہ وسعتِ افلاک
کرم ہے یا کہ ستم، تیری لذتِ ایجاد

معانی: مشتِ خاک: آدمی ۔ صرصر: تیز ہوا ۔ وسعتِ افلاک: آسمانوں کی فراخی ۔ کرم: رحمت ۔
مطلب: انسان جو ایک مشت خاک کے مانند ہے گوناگوں مصائب اور بلاؤں کے ہجوم میں گھرا ہوا ہے ۔ یہ بلائیں او ر مصائب آسمانوں کی تمام تر وسعت کا احاطہ کئے ہوئے ہیں ۔ اب اس کا اندازہ کیسے ہو کہ تیرے ذوق تخلیق میں یہ عمل قہر و غضب پر مبنی ہے یا لطف و عنایت کا حامل ہے ۔

ٹھہر سکا نہ ہوائے چمن میں خیمہَ گل
یہی ہے فصلِ بہاری یہی ہے بادِ مراد

معانی: خیمہَ گل: پھولوں کا خیمہ ۔ فصلِ بہاری: بہار کا موسم ۔ بادِ مراد: وہ ہوا جس سے خواہش پوری ہو ۔
مطلب: یہ درست ہے کہ بہار آئی تو باغوں میں پھول کھلے لیکن خزاں کے جھونکوں سے وہ سب کے سب مرجھا گئے ۔ کیا یہی وہ مختصر عرصہ زیست ہے جسے بہار کے موسم اور باد مراد سے منسوب کیا جاتا ہے ۔

قصور وار، غریب الدیار ہوں ، لیکن
ترا خرابہ فرشتے نہ کر سکے آباد

معانی: غریب الدیار: بے وطن ۔ ترا خرابہ: غیر آباد جہان ۔
مطلب: خداوندا! بے شک تو نے آدم کو ایک گناہ کی پاداش میں کرہَ ارض پر جلاوطن تو کر دیا تاہم اس نے اس خراب کو ایک گلشن میں تبدیل کر دیا ظاہر ہے کہ یہ عمل تیرے فرشتوں کے بس کا روگ نہ تھا ۔

مری جفاطلبی کو دعائیں دیتا ہے
وہ دشتِ سادہ، وہ تیرا جہانِ بے بنیاد

معانی: جفا طلبی: محنت مشقت ۔ دشت سادہ: صحرا، غیر آباد علاقہ ۔ بے بنیاد: جس کی کوئی بنیاد نہ ہو ۔
مطلب: یہ آدم کی محنت اور جفاکشی تھی جس نے ویران خطہَ ارض کو گل و گلزار بنا دیا ۔ یہاں کے موجود عناصر آج بھی اس حقیقت کے معترف ہیں ۔

خطر پسند طبیعت کو سازگار نہیں
وہ گلستاں کہ جہاں گھات میں نہ ہو صیاد

معانی: خطر پسند طبیعت: خطرے پسند کرنے والی طبیعت ۔ سازگار: درست نہیں ۔ گلستاں :باغ ۔ صیاد: شکاری ۔
مطلب: خطروں اور مشکلات سے نبردآزما ہونے والی طباءع کسی ایسے گلستان کو بھی ناپسند کرتی ہیں جہاں کوئی مدمقابل موجود نہ ہو ۔

مقام شوق ترے قدسیوں کے بس کا نہیں
انھی کا کام ہے یہ جن کے حوصلے ہیں زیاد

معانی: مقام شوق: عشق کی دنیا ۔ قدسیوں : فرشتوں ۔ حوصلے ہیں زیاد: زیادہ حوصلے والے، یہاں مراد انسان ہے ۔
مطلب: اے خدا یہ جاں نثاری کا عمل تیرے فرشتوں کے بس کا نہیں ہے اس کے سزاوار تو وہی لوگ ہو سکتے ہیں جن میں جرات و ہمت کی کمی نہ ہو ۔ اس شرط پر فرشتے نہیں بلکہ آدم ہی پورا اتر سکتا ہے ۔

————————————–
Translation

Asar Kare Na Kare, Sun To Le Meri Faryad
Nahin Hai Dad Ka Talib Ye Banda’ay Azad

Ye Musht-e-Khaak, Ye Sar Sar, Ye Wusaat-e-Aflak
Karam Hai Ya Ke Sitam Teri Lazzat-e-Ijad

Thehar Saka Na Huwa’ay Chaman Mein Khaima’ay Gul
Ye Hai Fasal-e-Bahari, Ye Hai Baad-e-Murad

Kasoorwar, Ghareeb-ud-Diyar Hun, Lekin
Tera Kharaba Farishte Na Kar Sake Abad

Meri Jafa Talbi Ko Duaen Deta Hai
Woh Dasht-e-Sada, Woh Tera Jahan-e-Bebunyad

Khatar Pasand Tabiyat Ko Saazgaar Nahin
Woh Gulistan Ke Jahan Ghaat Mein Na Ho Sayyad

Maqam-e-Shauq Tere Qudsiyon Ke Bus Ka Nahin
Unhi Ka Kaam Hai Ye Jin Ke Hosle Hain Zayyad

—————————————–

Whether or not it moves you, At least listen to my complaint—
It is not redress this free spirit seeks.

This handful of dust, this fiercely blowing wind, and these vast, limitless heavens—
Is the delight You take in creation a blessing or some wanton joke?

The tent of the rose could not withstand the wind blowing through the garden:
Is this the spring season, and this the auspicious wind?

I am at fault, and in a foreign land,
But the angels never could make habitable that wasteland of yours.

Gratefully remembers my love of hardship.
That stark wilderness, that insubstantial world of Yours

An adventurous spirit is ill at ease
In a garden where no hunter lies in ambush.

The station of love is beyond the reach of Your angels,
Only those of dauntless courage are up to it.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button