با ل جبر یل - منظو ما ت

لہو

اگر لہو ہے بدن میں تو خوف ہے نہ ہراس
اگر لہو ہے بدن میں تو دل ہے بے وسواس

جسے ملا یہ متاع گراں بہا اس کو
 نہ سیم و زر سے محبت ہے نے غم افلاس

مطلب: انسانی جسم میں خون تندرستی اور جوش و جذبے کی علامت ہے ۔ ان اشعار میں اسی امر کی نشاندہی کی گئی ہے کہ اگر جسم میں خون موجود ہے تو وہ انسان کو نہ صرف یہ کہ تروتازہ رکھتا ہے بلکہ خوف و ہراس بھی اس کے قریب نہیں بھٹکتا ۔ خون کی موجودگی کے سبب دل میں کوئی وسوسہ بھی پیدا نہیں ہوتا ۔ اقبال کہتے ہیں کہ جس شخص کو خون جیسی گراں بہا شے میسر آ گئی وہ ملک و دولت کی بھی پروا نہیں کرتا بلکہ افلاس اور غربت سے بھی بے نیاز ہو جاتا ہے اور اپنی تندرستی کے علاوہ جرات و ہمت اور حوصلہ کی بنیاد پر ہر شے کے حصول پر قدرت رکھتا ہے ۔

————————

Transliteration

Agar Lahoo Hai Badan Mein To Khof Hai Na Haraas
Agar Lahoo Hai Badan Mein To Dil Hai Be Waswaas

Jise Mila Ye Mataa-e-Garan Baha, Uss Ko
Na Seem-o-Zar Se Mohabbat Hai, Ne Gham-e-Aflaas

————————–

If blood is warm in the body, there is no fear nor anxiety,
And the heart is free of tribulations.

The one who has received this bounty
Is neither greedy for wealth nor miserable in poverty.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button