با ل جبر یل - منظو ما ت

حال ومقام

دل زندہ و بیدار اگر ہو تو بتدریج
بندے کو عطا کرتے ہیں چشمِ نگراں اور

معانی: بتدریج: آہستہ آہستہ ۔ چشمِ نگراں : دیکھنے والی آنکھ ۔
مطلب: یہ مختصر مگر انتہائی خوبصورت نظم ہر چند کہ محض چار اشعار پر مشتمل ہے لیکن علامہ اقبال نے یہاں ایک اہم نکتے کو بڑی مہارت اور حکمت کے ساتھ واضح کیا ہے اور وہ نکتہ یہ ہے کہ ہر وہ انسان جو اس دنیا میں آتا ہے اس کی کیفیت اور مرتبہ ایک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے ۔ اس نکتے کو علامہ نے انتہائی حکمت اور استدلال کے ساتھ اس نظم میں واضح کیا ہے ۔ حال ان کے نزدیک فرد کی ذہنی، اخلاقی اور روحانی کیفیت سے عبارت ہے جب کہ مقام کو وہ اس روحانی مرتبے سے متعلق سمجھتے ہیں ۔ جس پر سالک پہنچا ہوا ہو ۔ یعنی وہ محبوب حقیقی تک رسائی کے لیے مختلف مراحل سے گزر رہا ہو ۔ اس نظم کے اس پہلے شعر میں وہ فرماتے ہیں کہ انسان اگر دل زندہ و بیدار کا مالک ہو تو قدرت بتدریج ایسی چشم بینا عطا کرتی ہے جو اسے کائنات کے اسرار و رموز سے آگاہی بخشے! حقیقت شناسی کا عمل اسی نکتے سے عبارت ہے ۔

احوال و مقامات پہ موقوف ہے سب کچھ
ہر لحظہ ہے سالک کا زماں اور مکاں اور

مطلب: تاہم یہ امر پیش نظر رکھنا لازم ہے کہ اس کا انحصار فرد کی کیفیت اور مرتبے پر ہے ان دونوں کی وضاحت سطور بالا میں کر دی گئی ہے ۔ بہرحال سالک کے مقام کے بارے میں علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ جو شخص ہر لمحہ محبوب حقیقی کی تلاش میں سرگردان رہتا ہے اس کے لیے زمان و مکان کی کیفیت اس کے احوال و مقام کے مطابق بدلتی رہتی ہے ۔

الفاظ و معانی میں تفاوت نہیں لیکن
مُلّا کی اذاں اور مجاہد کی اذاں اور

مطلب: اس امر کی ایک مثال اقبال ملا اور مجاہد کی اذان کے حوالے سے دیتے ہیں کہ زبان الفاظ اور متن کے اعتبار سے ملا جو اذان دیتا ہے وہی اذان مجاہد بھی دیتا ہے لیکن ان میں فرق نیت اور کردار کا ہے ۔ مراد یہ ہے کہ ملا جو اذان دیتا ہے تو محض اس کا تعلق زبان اور حلق سے ہوتا ہے ۔ روحانی سطح پر وہ اس کا اذان سے کوئی تعلق نہیں ہوتا گویا اس کا عمل محض دکھاوے کے لیے ہوتا ہے اس کے برعکس مجاہد کی اذان دل سے برآمد ہوتی ہے اور اس اذان میں قوت ایمان بھی کارفرما ہوتی ہے ۔ حالت امن ہو یا میدان کارزار اس کی اذان نفس مطمئنہ کی مظہر ہوتی ہے ۔ یہی ملا اور مجاہد کی اذان میں فرق ہے ۔

پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں
کرگس کا جہاں اور ہے، شاہیں کا جہاں اور

معانی: کرگس: گدھ ۔ شاہیں : باز ۔
مطلب: اسی مضمون کو اقبال یہاں بھی دہراتے ہیں لیکن اس شعر میں انھوں نے کردار بدل دیے ہیں ۔ اس سے پہلے شعر میں بھی بنیادی مقصد تو اذان تھا لیکن تقابل دو کرداروں ملا اور مجاہد کے مابین رہا جب کہ اس شعر میں فضا تو مشترک ہے لیکن جب اس میں کرگس اور شاہین محو پرواز ہوتے ہیں تو ان کا عمل ایک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے ان دونوں اشعار کے حوالے سے دیکھا جائے تو اقبال نے تمثالی سطح پر ملا اور کرگس ، دوسری جانب مجاہد اور شاہیں کے کرداروں کے حوالے سے اپنا مفہوم واضح کیا ہے ۔

———————————-

Transliteration

Dil Zinda-o-Baidar Agar Ho To Batadreej
Bande Ko Atta Karte Hain Chashme-e-Nigran Aur

Ahwal-o-Maqamat Pe Mouqoof Hai Sub Kuch
Har Lehza Hai Salik Ka Zaman Aur Makan Aur

Alfaz-o-Maani Mein Tafawat Nahin Lekin
Mullah Ki Azan Aur, Mujahid Ki Azan Aur

Parwaz Hai Dono Ki Issi Aik Faza Mein
Kargas Ka Jahan Aur Hai, Shaheen Ka Jahan Aur

————————–

When the heart is enlightened,
It is blessed with an inward eye.

The initiate has a different level
Of space and time in each position.

The mullah’s and the mujahid’s azan,
The same in words, are apart in spirit.

The vulture and the eagle soar
In the same air, but in worlds apart.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button