با ل جبر یل - منظو ما ت

لالہ صحرا

یہ گنبدِ مینائی، یہ عالمِ تنہائی
مجھ کو تو ڈراتی ہے اس دشت کی پہنائی

معانی: گنبدِ مینائی: آسمان ۔ عالمِ تنہائی: اکیلے رہنے کا جہان ۔ دشت کی پہنائی: جنگل کی وسعت ۔ لالہَ صحرائی: صحرا کا پھول ۔
مطلب: صحرا کی وسعت اور فراخی! جس پر نیلگون آسمان کا گبند! اس ماحول میں اے لالہ صحرا تیری موجودگی حیران کن ہے جب کہ میرے لیے تو یہ سب کچھ خوفزدہ کرنے کا سبب ہے ۔ عملی سطح پر یہ کیفیت تو ترک دنیا کے عمل کی مظہر ہے جب کہ میرے نزدیک زندگی ترک دنیا نہیں بلکہ اس میں موجود رہ کر اپنے مقاصد کر بروئے کار لانے کے لیے عملی جدوجہد کا نام ہے ۔

بھٹکا ہوا راہی میں ، بھٹکا ہوا راہی تُو
منزل ہے کہاں تیری اے لالہَ صحرائی

معانی: ہر چند کہ اپنی بے عملی کے سبب ایک ایسے مسافر کی مانند ہوں جو کہ گم کردہ راہ کی حیثیت رکھتا ہے اور تیرا وجود بھی مجھے کچھ اپنے سے ملتا جلتا محسوس ہوتا ہے ۔ میری طرح تو نے بھی کبھی سوچا کہ تیری منزل کون سی ہے جب کہ تو نے تو خود کو صحرا و بیابان تک محدود کر لیا ہے ۔ اس ماحول میں آخر تیرے حسن کا قدر دان کون ہے

خالی ہے کلیموں سے یہ کوہ و کمر ورنہ
تو شعلہَ سینائی، میں شعلہَ سینائی

مطلب: یہ ایک المیہ ہے کہ دنیا کے پہاڑ اور اس کے دامن اب پیغمبر خدا حضرت موسیٰ کلیم اللہ جیسی بلند پایہ ہستیوں کی آماجگاہ نہیں رہے ورنہ میرے سینے میں بھی وہی شعلہ موجود ہے اور تیرے سینے میں جو حضرت موسیٰ کو کوہ طور پر نظر آیا تھا اور جس کی تاب نہ لا کر وہ بے ہوش ہو گئے تھے ۔ مراد یہ ہے کہ تیری طرح مجھ میں بھی وہ خصوصیتیں موجود ہیں جو حسن حقیقی کی آئینہ دار ہیں لیکن ہوا یوں ہے کہ ان کا ادراک رکھنے والے لوگ ناپید ہو چکے ہیں ۔

تو شاخ سے کیوں پھوٹا ، میں شاخ سے کیوں ٹوٹا
اک جذبہَ پیدائی، اک لذتِ یکتائی

معانی: پیدائی: ظاہر ہونا ۔ یکتائی: تنہا ہونا ۔
مطلب: اس پس منظر میں یہ سوال بھی ذہن میں ابھرتا ہے کہ اے لالہ صحرا، تو شاخ کی کوکھ سے کیوں برآمد ہوا اور میں عدم سے وجود میں کیوں آیا تو اس کا جواب بھی شاید مشکل نہیں ہے ۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ ہر شے میں نمود و نمائش کا جذبہ موجود ہوتا ہے ۔ یہی جذبہ تیری تخلیق کا سبب بنا اور یہی جذبہ میری تخلیق کا ۔ دونوں کا مقصد یہی ہو سکتا ہے کہ اس عالم رنگ و بو میں آ کر اپنے اپنے مقام سے ذاتی انفرادیت اور خود نمائی کا اظہار کیا جائے ۔

غوّاصِ محبت کا اللہ نگہباں ہو
ہر قطرہَ دریا میں ، دریا کی ہے گہرائی

معانی: غواص محبت: محبت میں غوطہ لگانے والا ۔
مطلب: عشق و محبت کی راہیں اس قدر کٹھن ہیں کہ ان سے خدا کی مدد کے بغیر عاشق عہدہ برآ نہیں ہو سکتا ۔ اس راہ کا ایک ایک مرحلہ پورے بیابان خارزار سے گزرنے کے برابر ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس میں دلی مقصد کا حصول انتہائی مشکلات کا حامل ہے ۔

اس موج کے ماتم میں روتی ہے بھنور کی آنکھ
دریا سے اُٹھی لیکن ساحل سے نہ ٹکرائی

مطلب: عملی جدوجہد کے ذریعے بے شک ہر شخص اپنی منزل پا لیتا ہے لیکن کچھ بدقسمت افراد ایسے بھی ہوتے ہیں جو تمام تر عملی جدوجہد اور اس کے علاوہ ہر نوع کی مشکلات سے گزرنے کے باوجود اپنے مقصد کے حصول میں ناکام رہتے ہیں ۔ فطرت بھی ایسے لوگوں کی ناکامی پر کسی نہ کسی اندا ز میں اظہار تاسف کئے بغیر نہیں رہتی ۔ لیکن ایسا شاذونادر ہی ہوتا ہے ۔ انسان کو اس کی محنت اور جدوجہد کا پھل کسی نہ کسی صورت میں مل ہی جاتا ہے ۔

ہے گرمیِ آدم سے ہنگامہَ عالم گرم
سورج بھی تماشائی، تارے بھی تماشائی

مطلب: کائنات میں اگر کوئی فرد سرگرم عمل ہے تو وہ محض انسان ہے جو دنیاوی سطح پر تہذیب و تمدن اور معاشرے کی بھلائی کے لیے ہر ممکن سعی کرتا رہتا ہے ورنہ سورج اور ستارے ہر چند کہ تاریکی میں جلوہ آرا ہوتے ہیں اور دنیا کو منور کرنے کے فراءض بھی انجام دیتے ہیں ۔ اس کے باوجود ان کی حیثیت محض تماشائی کی سی ہے ۔ سارا زمام کار تو انسان کے ہاتھوں میں ہے ۔

اے بادِ بیابانی مجھ کو بھی عنایت ہو
خاموشی و دل سوزی، سرمستی و رعنائی

معانی: بادِ بیابانی: جنگلی ہوا ۔ دل سوزی: دل جلانا ۔ سرمستی: مست رہنا ۔ رعنائی: خوبصورت ہونا ۔
مطلب: کاش مجھے بھی رب ذوالجلال ان کیفیتوں سے نواز دے جو اس نے صحرا کی ہواؤں کو بخشی ہیں کہ تنہائی کے سناٹے میں جاری و ساری رہتی ہیں ۔ ایک طرف سکون اور دوسری جانب سرمستی اور رعنائی سے ان کا وجود عبارت ہے ۔ میں بھی انہی کیفیات میں زندگی گزارنے کا

——————–

Transliteration

Lala-e-Sehra

Ye Gunbad-e-Meenai, Ye Alam-e-Tanhai
Mujh Ko To Darati Hai Iss Dasht Ki Pehnayi

Bhatka Huwa Raahi Main, Bhatka Huwa Raahi Tu
Manzil Hai Kahan Teri Ae Lala-e-Sehrayi!

Khali Hai Kaleemon Se Ye Koh-o-Qamar Warna
Tu Shoala-e-Seenayi, Mein Shoala-e-Seenayi!

Tu Shakh Se Kyun Phoota, Main Shakh Se Kyun Toota
Ek Jazba-e-Paidayi, Ek Lazzat-e-Yaktayi!

Ghawwas-e-Mohabbat Ka Allah Nigheban Ho
Har Qatra-e-Darya Mein Darya Ki Hai Gehrayi

Uss Mouj Ke Matam Mein Roti Hai Bhanwar Ki Ankh
Darya Se Uthi Lekin Sahil Se Na Takrayi

Hai Garmi-e-Adam Se Hungama-e-Alam Garam
Sooraj Bhi Tamashayi, Tare Bhi Tamashayi

Ae Bad-e-Biyani! Mujh Ko Bhi Anayat Ho
Khamoshi-o-Dil Souzi, Sar Masti-o-Raanayi!

————————–

POPPY OF THE WILDERNESS

Oh blue sky‐dome, oh world companionless!
Fear comes on me in this wide desolation.

Lost travellers, you and I; what destination
Is yours, bright poppy of the wilderness?

No prophet walks these hills, or we might be
Twin Sinai‐flames; you bloom on Heaven’s spray

For the same cause I tore myself away:
To unfold; to be our selves, our wills agree.

On the diver of Love’s pearl‐bank be God’s hand—
In every ocean‐drop all ocean’s deeps!

The whirlpool mourning for its lost wave weeps,
Born of the sea and never to reach the land.

Man’s hot blood makes earth’s fevered pulses race,
With stars and sun for audience.

Oh cool air Of the desert! Let it be mine too to share
In silence and heart‐glow, rapture and grace.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button