بال جبریل (حصہ دوم)علامہ اقبال شاعری

نگاہ فقر ميں شان سکندری کيا ہے

 

نگاہِ فقر میں شانِ سکندری کیا ہے
خراج کی جو گدا ہو وہ قیصری کیا ہے

معانی: خراج: ٹیکس ۔ قیصری: بادشاہی ۔
مطلب: یہ شعر اقبال کی مخصوص فکر کا حامل ہے ۔ فرماتے ہیں جو حقیقی درویش ہوتا ہے وہ اپنی بے نیازی کے طفیل سکندر جیسے بادشاہ کی شان و شوکت کو خاطر میں نہیں لاتا اور یہ بھی حقیقت ہے کہ رعایا سے خراج حاصل کر کے جو لوگ اپنا خزانہ بھرتے ہیں ان کی بادشاہی کس قدر مضحکہ خیز ہے ۔ مراد یہ کہ ایسا حکمران تو ضرور رعایا کا محتاج ہوتا ہے ۔

بتوں سے تجھ کو امیدیں خدا سے نومیدی
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے

مطلب: کفر کی ایک جامع تعریف علامہ نے اپنے اس شعر میں بیان کر دی ہے کہ جو شخص خدا کی رحمت سے مایوس ہو کر غیر از خدا کے سامنے دست سوال دراز کرتا ہے حقیقتاً وہی کفر کا ارتکاب کرتا ہے ۔

فلک نے ان کو عطا کی ہے خواجگی کہ جنہیں
خبر نہیں روشِ بندہ پروری کیا ہے

معانی: خواجگی: سرداری، حکمرانی ۔ بندہ پروری: غلام سے حُسنِ سلوک ۔
مطلب: حالات نے بدقسمتی سے ایسے لوگوں کو اقتدار عطا کیا ہے جو اس حقیقت سے بھی آگاہ نہیں کہ حقوق العباد کس شے کا نام ہے ۔

فقط نگاہ سے ہوتا ہے فیصلہ دل کا
نہ ہو نگاہ میں شوخی تو دلبری کیا ہے

مطلب: دل کا فیصلہ تو بس ایک نگاہ سے ہی ہوتا ہے اور نگاہ میں شوخی نہ ہوتو دلبری کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی ۔

اسی خطا سے عتابِ ملوک ہے مجھ پر
کہ جانتا ہوں مآلِ سکندری کیا ہے

معانی: عتابِ ملوک: بادشاہوں کی ناراضی ۔ مآل سکندری: سکندر بادشاہ کا انجام ۔
مطلب: سکندر جیسے بادشاہ کے انجام سے چونکہ میں پوری طرح آگاہ ہوں اور یہی بات شاہی آمروں کو کھٹکتی ہے کہ میں اس راز سے واقف ہوں ۔ بجائے اس کے کہ وہ دوسرے بادشاہوں کے انجام سے عبرت حاصل کریں مجھ سے بلاوجہ کی کد رکھتے ہیں ۔

کسے نہیں ہے تمنائے سروری، لیکن
خودی کی موت ہو جس میں وہ سروری کیا ہے

مطلب: یہ بھی درست ہے کہ ہر شخص کو دوسروں پر فوقیت اور سرداری کے حصول کی خواہش ہوتی ہے لیکن ایسی سرداری بے معنی شے ہے جو انسان میں خودی کی موت کا سبب بنے ۔ مراد یہ ہے کہ خودی کا وجود ہی سرداری کے لیے مناسب ہوتا ہے ۔

خوش آ گئی ہے جہاں کو قلندری میری
وگرنہ شعر مرا کیا ہے ، شاعری کیا ہے

معانی: قلندری: درویشی ۔
مطلب: اقبال کہتے ہیں میرے شعر اور شاعری کچھ زیادہ اہمیت کے حامل نہیں ۔ بس یوں محسوس ہوتا ہے کہ مجھ میں جو درویشانہ روش ہے وہی لوگوں کو غالباً پسند آ گئی ہے ۔ اسی وجہ سے وہ میری ذات کے علاوہ میری شاعری کو بھی پسند کرتے ہیں ۔

————————

Translation

Nigah-e-Faqr Mein Shan-e-Sikandari Kya Hai
Kharaj Ki Jo Gada Ho, Woh Qaisri Kya Hai!

Buton Se Tujh Ko Umeedain, Khuda Se Naumeedi
Mujhe Bata To Sahi Aur Kafiri Kya Hai!

Falak Ne Un Ko Atta Ki Hai Khawajgi Ke Jinhain
Khabar Nahin Rawish-e-Banda Parwari Kya Hai

Faqt Nigah Se Hota Hai Faisla Dil Ka
Na Ho Nigah Mein Shaukhi To Dilbari Kya Hai

Issi Khata Se Itaab-e-Mulook Hai Mujh Par
Ke Janta Hun Maal-e-Sikandari Kya Hai

Kise Nahin Hai Tamana-e-Sarwari, Lekin
Khudi Ki Mout Ho Jis Mein Woh Sarwari Kya Hai!

Khush Aa Gyi Hai Jahan Ko Qalandari Meri
Wagarna Shair Mera Kya Hai, Shayari Kya Hai!

————————-

The splendour of a monarch great is worthless for the free and bold:
Where lies the grandeur of a king, whose riches rest on borrowed gold?

You pin your faith on idols vain and turn your back on Mighty God:
If this is not unbelief and sin, what else is unbelief and fraud?

Luck favours the fool and the mean, and exalts and lifts to the skies
Only those who are base and low and know not how to patronize.

One look from the eyes of the Fair can make a conquest of the heart:
There is no charm in the fair sweet, If it lacks this alluring art.

I am a target for the hate of the mighty rich and the great,
As I know the end of Caesars great and know the freaks of luck or fate.

To be a person great and strong is the end and aim of all;
But that rank is not real and true that is attained by the ego’s fall.

My bold and simple mode of life has captured each and every heart;
Though my numbers are lame and dull And lay no claim to poet’s art.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button