بال جبریل (حصہ دوم)

خودی ہو علم سے محکم تو غيرت جبريل

 

خودی ہو علم سے محکم تو غیرتِ جبریل
اگر ہو عشق سے محکم تو صورِ اسرافیل

مطلب: خودی کے جذبے کو اگر علم سے استحکام مل جائے تو اس پر جبرئیل جیسا فرشتہ بھی رشک کرے گا اور اگر اس جذبے میں عشق حقیقی بھی شامل ہو جائے تو خودی کی کیفیت وہ انقلاب انگیز تاثر پیدا کرے گی جو رب ذوالجلال نے قیامت کے دن کے لئے صور اسرافیل کو عطا کیا ہے ۔

عذابِ دانشِ حاضر سے باخبر ہوں میں
کہ میں اس آگ میں ڈالا گیا ہوں مثلِ خلیل

معانی: عذابِ دانشِ حاضر: موجودہ زمانے کی عقل کا عذاب ۔ مثلِ خلیل: حضرت ابراہیم کی طرح ۔
مطلب: اقبال کہتے ہیں کہ میں اس حقیقت سے پوری طرح آگاہ ہوں کہ عہد حاضر کے علم و دانش میرے لیے ایک عذاب کے مانند ہیں اور اس عذاب میں میں خود کو اسی طرح سے محسوس کرتا ہوں جس طرح حضرت ابراہیم خلیل اللہ نے آتش نمرود میں داخل ہو کر خود کو محسوس کیا تھا ۔ مراد یہ ہے کہ عہد حاضر کی دانش بقول اقبال میرے لیے اسی طرح عذاب کے مانند ہے جس طرح حضرت ابراہیم کے لیے آتش نمرود تھی ۔ اور جس طرح آتش نمرود سے حضرت ابراہیم خلیل اللہ بحفاظت نکل آئے تھے ۔ اسی طرح میں بھی انشاء اللہ اس عذاب سے محفوظ رہوں گا جس میں مبتلا ہوں ۔

فریب خوردہَ منزل ہے کارواں ورنہ
زیادہ راحتِ منزل سے ہے نشاطِ رحیل

معانی: فریب خوردہ: دھوکے میں آیاہوا ۔ نشاطِ رحیل: سفر کی خوشی ۔
مطلب: میرا قافلہ امر واقع یہ ہے کہ سراب کو منزل سمجھ کر دھوکا کھا بیٹھا ہے ۔ ورنہ اگر وہ حقیقت حال کے ادراک رکھتا تو اسے یہ جاننے میں دقت نہ ہوتی کہ سستانے کے لیے قیام سے کہیں زیادہ بہتر مسلسل سفر ہوتا ۔ خواہ اس عمل میں کتنی ہی تکلیفوں کا سامنا ہو ۔

نظر نہیں تو مرے حلقہَ سخن میں نہ بیٹھ
کہ نکتہ ہائے خودی ہیں مثالِ تیغِ اصیل

معانی: تیغ اصیل: اصل لوہے کی تلوار ۔
مطلب: اگر تیرے پاس نگاہ دوررس نہیں تو میری محفل سے دور رہ ۔ اس لیے کہ میں تو یہاں فلسفہ خودی کے حوالے سے جو نکتے بیان کرتا ہوں وہ تو دل میں اتر جانے والے ہیں اور ان میں ایسی کاٹ ہے جو تیغ اصیل میں ہوتی ہے ۔

مجھے وہ درسِ فرنگ آج یاد آتے ہیں
کہاں حضور کی لذت، کہاں حجابِ دلیل

مطلب: اقبال کا کہنا ہے کہ مجھے اب یورپ میں طالبعلمی کا وہ دور یاد آ رہا ہے جہاں ہر مسئلے کے بارے میں استدلال سے کام لیا جاتا تھا لیکن اب میں یہ محسوس کرنے لگا ہوں کہ مجھے آج جب کہ حضوری قلب حاصل ہوئی ہے تو اس کے مقابلے میں استدلال تو ایک طرح سے بے معنی شے ہے ۔ چونکہ دیکھا جائے تو حضوری قلب میں جو لذت موجود ہے وہ استدلال میں نہیں ۔

اندھیری شب ہے، جدا اپنے قافلے سے ہے تو
ترے لیے ہے مرا شعلہَ نوا قندیل

مطلب: اس شعر میں علامہ نے مسلمانوں سے مخاطب ہو کر کہا ہے کہ نامساعد حالات کی اندھیری رات میں تم لوگ اپنے قافلے سے بھٹک کر رہ گئے البتہ اگر تو اشعار اور ان کی فکر کی گہرائی سے استفادہ کر سکے تو یہ تیرے شب کی تاریکی میں روشن چراغ کے مانند ہوں گے جن سے تم بھٹکے ہوئے لوگ سفر منزل میں چراغوں سے قدرے روشنی حاصل کر سکو گے ۔

غریب و سادہ و رنگیں ہے داستانِ حرم
نہایت اس کی حسین ابتدا ہے اسماعیل

مطلب: حرم کعبہ کی داستان اور پس منظر کا ذکر کرتے ہوئے علامہ کہتے ہیں کہ یہ بظاہر غریب و سادہ ہونے کے باوجود تاریخی سطح پر ہمہ جہت رنگوں کی حامل ہے اس لیے کہ اس کی عظمت و تعمیر کی انتہا نواسہ رسول امام حسین علیہ السلام کی شہادت عظمیٰ سے ہوئی ہے اور ابتداء پیغمبر خدا حضرت اسمٰعیل ذبیح اللہ کے جذبہ قربانی سے ۔ اقبال کے بعض دوسرے اشعار کی طرح یہ شعر بھی ان کے کلام میں ضرب المثل کی حیثیت اختیار کر گیا ہے ۔

————————

Translation

Khudi Ho Ilm Se Muhkam To Ghairat-e-Jibreel
Agar Ho Ishq Se Muhkam To Soor-e-Israfeel

Azab-e-Danish-e-Hazir Se Ba-Khabar Hun Mein
Ke Main Iss Aag Mein Dala Gya Hun Misl-e-Khalil (A.S.)

Faraib Khurdah-e-Manzil Hai Karwan Warna
Zaida Rahat-e-Manzil  Se Hai Nishat-e-Raheel

Nazar Nahin To Mere Halqa-e-Sukhan Mein Na Baith
Ke Nukta Haye Khudi Hain Misaal-e-Taeg-e-Aseel

Mujhe Woh Dars-e-Farang Aaj Yad Ate Hain
Kahan Huzoor Ki Lazzat, Kahan Hijab-e-Daleel !

Andheri Shab Hai, Juda Apne Qafle Se Hai Tu
Tere Liye Hai Mera Shaola-e-Nawa, Qandeel

Ghareeb-o-Sada-o-Rangeen Hai Dastan-e-Haram
Nahayat Iss Ki Hussain (R.A.), Ibtada Hai Ismaeel (A.S.)

————————————–

If self with knowledge strong becomes, Gabriel it can envious make:
If fortified with passion great, Like trump of Israfil can shake.

The scourge of present science and thought, To me, no doubt, is fully known,
Like Abraham, the Friend of God, In its flame I have been thrown. 

The caravan in quest of goal by charm of lodge is led astray,
Though never can the ease of lodge be same as joy to be on way.

If seeing eye you do not own, Among my listeners do not pause,
For subtle points about the self, Like sword, deep yawning wounds can cause.

Still to mind I can recall, In Europe what I learnt by heart:
But can the veil of Reason match with joy that Presence can import.

From caravan you are adrift, and night has donned a mantle black:
For you my song that burns as flame, like a torch, can light the track.

The tale of the Holy Shrine, if told, is simple, strange and red in hue:
With Ismail (A.S.) the tale begins ends with Husain (R.A.), the martyr true. 

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button