با نگ درا - ظریفانہ - (حصہ سوم)علامہ اقبال شاعری

دليل مہر و وفا اس سے بڑھ کے کيا ہوگی

دلیل مہر و وفا اس سے بڑھ کے کیا ہو گی
نہ ہو حضور سے الفت، تو یہ ستم نہ سہیں

معانی: مہر و وفا: محبت اور ساتھ نبھانا ۔ حضور: مراد حاکم ۔
مطلب: فرماتے ہیں کہ ایک خوشامدی شخص نے انگریز افسر سے کہا ہ میں حضور سے جس قدر محبت ہے اس کا اندازہ یوں ہو سکتا ہے کہ ہمارے اپنے بھائی آپ سے محبت وفاداری کی بنا پر ہ میں طعن و تشنیع اور ظلم و ستم کا نشانہ بناتے ہیں ۔ یہی بات حضور سے ہماری وفاداری کی دلیل ہے ۔

مُصِر ہے حلقہ کمیٹی میں کچھ کہیں ہم بھی
مگر رضائے کلکٹر کو بھانپ لیں تو کہیں

مطلب: جس حلقے سے ہم کمیٹی کا انتخاب لڑ رہے ہیں وہاں کے لوگ جو ہمارے رائے دہندگان بھی ہیں یہ توقع رکھتے ہیں کہ ان کے حقوق کی بات بھی کریں جب کہ ہم اس امر کا اندازہ لگا رہے ہیں کہ ضلع کے حاکم اعلیٰ یعنی کلکٹر کا ان معاملات میں کیا نقطہ نظر ہے اور اس کی مرضی کیا ہے ۔

سند تو لیجیے، لڑکوں کے کام آئے گی
وہ مہربان ہیں اب، پھر رہیں ، رہیں نہ رہیں

مطلب: اس شعر میں ایک ایسے مسئلے کی جانب اشارہ کیا گیا ہے جو انگریزی دور میں عام روایت بن گیا تاکہ متعدد لوگ انگریز افسروں کی خوشامدوں کی بدولت خوشنودی کی سند حاصل کر لیتے اور بعد میں اسی سند کو دکھا کر اس افسر یا اس کے بعد آنے والے افسروں سے اپنے کام نکلواتے ۔ چنانچہ ایسا ہی ایک خوشامدی شخص کہتا ہے کہ میں اس افسر سے سند تو حاصل کر لوں تا کہ اپنے کام نکلوا سکوں بعد میں کیا پتہ یہ لوگ اسی طرح مہربان رہیں یا نہ رہیں ۔ ہوا کا رخ بدلتے دیر نہیں لگتی ۔ بدقسمتی یہ ہے کہ آج سالہا سال گزرنے کے باوجود انگریز کی یہ بدعت آج بھی بدستور قائم ہے ۔ انتخابات ہوں ، رائے دہندگان کے ووٹ خریدنے اور ملازمتوں کے حصول میں ایسی ہی قباحتیں موجود ہیں ۔

زمین پر تو نہیں ہندیوں کو جا ملتی
مگر جہاں میں ہیں خالی سمندروں کی تہیں

معانی: ہندیوں : ہندوستان کے رہنے والے ۔ جا: جگہ:
مطلب: انگریز کی غلامی کے دور میں یہ حقیقت ہے کہ ہندوستانی باشندوں کے لیے زمین تنگ کر دی گئی ہے اور کسی جگہ پر بھی انہیں عزت و وقار سے نہیں دیکھا جاتا چنانچہ غیرت منڈی کا تقاضا تو یہی ہے کہ سمندروں میں کود کر خود کشی کر لیں کہ ان کی تہوں میں لاشوں کو پناہ تو بہرحال مل ہی جائے گی کہ غلامی میں دکھوں اور تکلیفوں کا علاج موت کے سوا اور کچھ نہیں ۔

مثالِ کشتیِ بے حس مطیع فرماں ہیں
کہو تو بستہَ ساحل رہیں ، کہو تو بہیں

مطلب: ہم ہندوستانی تو اس دور غلامی میں ایک ایسی کشتی کی مانند ہیں جو ساحل پر بندھی ہوئی ہے جب ملاح چاہتا ہے اسے کھول دیتا ہے اور اپنی مرضی کے مطابق جس طرف چاہے کھیتا چلا جاتا ہے ۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہندوستانی انگریزوں کے احکام کے اس طرح مطیع ہیں کہ ان کی مرضی کے خلاف ایک قدم بھی نہیں اٹھا سکتے ۔

——————-

Transliteration

Daleel-e-Mehr-o-Wafa Iss Se Barh Ke Kya Ho Gi
Na Ho Huzoor Se Ulfat To Ye Sitam Na Sahain

Musir Hai Halqa, Committee Mein Kuch Kahain Hum Bhi
Magar Razaye Collector Ko Bhanp Lain To Kahain

Sanad To Lijiye, Larkon Ke Kaam Aye Ge
Woh Mehrban Hain Ab, Phir Rahain Rahain Na Rahain

Zameen Parto Nahin Hindiyon Ko Ja Milti
Magar Jahan Mein Hain Khali Samundar Ki Tehain

Misal-e-Kashti-e-Behiss Matee-e-Farman Hain
Kaho To Basta-e-Sahil Rahain, Kaho To Bahain

———————–

What will be a better proof of affection and fidelity
With no love for you how intolerable will this cruelty be

Insistence is that in the ward committee I should also speak
But I shall speak after guessing if the Collector agreeable with me will be

Obtain the testimonial, it will be of use for sons
He is favorable now, later he may or may not be

Indians cannot find a place on the earth
But the oceans’ bottom available may be

Like the insensitive boat we are subservient to orders
We are bound to the bank or float as your desire may be

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button