مشرق کے نيستاں ميں ہے محتاج نفس نے
شاعر ! ترے سينے ميں نفس ہے کہ نہيں ہے
تاثير غلامي سے خودي جس کي ہوئي نرم
اچھي نہيں اس قوم کے حق ميں عجمي لے
شيشے کي صراحي ہو کہ مٹي کا سبو ہو
شمشير کي مانند ہو تيزي ميں تري مے
ايسي کوئي دنيا نہيں افلاک کے نيچے
بے معرکہ ہاتھ آئے جہاں تخت جم و کے
ہر لحظہ نيا طور ، نئي برق تجلي
اللہ کرے مرحلہ شوق نہ ہو طے