با ل جبر یل - منظو ما ت

چيونٹی اورعقاب

چیونٹی اور عقاب

چیونٹی

میں پائمال و خوار و پریشان و دردمند
تیرا مقام کیوں ہے ستاروں سے بھی بلند

معانی: پائمال: زمین پر کچلی جانے والی ۔ خوار: ذلیل ۔ دردمند: درد کی ماری ہوئی ۔ بلند: اونچا ۔
مطلب: ان دو اشعار میں بھی چیونٹی اور عقاب کے مابین ایک سبق آموز مکالمہ ہے جس کا ایک کردار کمزور اورپست ہے جب کہ دوسرا کردا ر باہمت ، حوصلہ مند اور بلند پرواز ہے ۔ یہ مکالمہ اس منطقی نتیجے کی نشاندہی کرتا ہے کہ دنیا میں وہی لوگ باوقار اور سربلند ہوتے ہیں جو اعلیٰ افکار کے مالک ہوتے ہیں ۔

عقاب

تو رزق اپنا ڈھونڈتی ہے خاکِ راہ میں
میں نُہ سپہر کو نہیں لاتا نگاہ میں

معانی: رزق: خوراک ۔ خاکِ راہ: زمین ۔ نُہ سپہر: نو آسمان ۔ نگاہ میں : نظر میں ۔
مطلب: اس شعر میں چیونٹی کے استفسار کے جواب میں عقاب یوں گویا ہوتا ہے کہ تیری ذلت و خواری کا سبب یہ ہے کہ تو نے پستی پر ہی قناعت کر لی ہے ۔ اس سے بڑی کم ہمتی اور کیا ہو گی کہ تو زندہ رہنے کے لیے رزق کی تلاش میں بھی خاک راہ تک محدود رہتی ہے یہی وجہ ہے کہ راہگیر تھے روند ڈالتے ہیں جب کہ میں تو آسمانوں کو بھی خاطر میں نہیں لاتا اور ان کی بھی پرواہ نہیں کرتا ۔ یہی سبب ہے کہ میں باوقار ہوں اور تو ذلیل و خوار ۔

————————

Transliteration

Main Paimaal-o-Khawar-o-Preshan-o-Dardmand
Tera Maqam Kyun Hai Sitaron Se Bhi Buland?

I am so miserable and forlorn—
Why is your station loftier than the skies?

Tu Rizq Apna Dhoondti Hai Khak-e-Rah Mein
Main Na Sipihr Ko Nahin Lata Nigah Mein!

You forage about in dusty paths;
The nine heavens are as nothing to me!

————————–

محمد نظام الدین عثمان

نظام الدین، ملتان کی مٹی سے جڑا ایک ایسا نام ہے جو ادب اور شعری ثقافت کی خدمت کو اپنا مقصدِ حیات سمجھتا ہے۔ سالوں کی محنت اور دل کی گہرائیوں سے، انہوں نے علامہ اقبال کے کلام کو نہایت محبت اور سلیقے سے جمع کیا ہے۔ ان کی یہ کاوش صرف ایک مجموعہ نہیں بلکہ اقبال کی فکر اور پیغام کو نئی نسل تک پہنچانے کی ایک عظیم خدمت ہے۔ نظام الدین نے اقبال کے کلام کو موضوعاتی انداز میں مرتب کیا ہے تاکہ ہر قاری کو اس عظیم شاعر کے اشعار تک باآسانی رسائی ہو۔ یہ کام ان کے عزم، محبت، اور ادب سے گہری وابستگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس کے ساتھ ہی، انہوں نے دیگر نامور شعرا کے کلام کو بھی یکجا کیا ہے، شاعری کے ہر دلدادہ کے لیے ایک ایسا وسیلہ مہیا کیا ہے جہاں سے وہ اپنے ذوق کی تسکین کر سکیں۔ یہ نہ صرف ایک علمی ورثے کی حفاظت ہے بلکہ نظام الدین کی ان تھک محنت اور ادب سے محبت کا وہ شاہکار ہے جو ہمیشہ زندہ رہے گا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button