بال جبریل (حصہ اول)علامہ اقبال شاعری

مٹا ديا مرے ساقی نے عالم من و تو

مٹا دیا مرے ساقی نے عالمِ من و تو
پلا کے مجھ کو مئے لا الہ الا ھو

معانی: ساقی: اللہ تعالیٰ ۔ من و تو: میرا تیرا یعنی ہم دونوں ایک ہیں ۔ مئے لا الہ الا ہو: کلمہ طیبہ کا انعام یعنی شراب توحید ۔
مطلب: اس غزل کے مطلع میں اقبال کہتے ہیں کہ پالنے والے کے حسب ارشاد من و تو کا فرق مٹا دیا ہے ۔ کہنے کا مطلب ہے کہ خدا کے سوا عبادت کے لائق اور کوئی فرد نہیں ہے اور اسی کے سبب میں اور تو کا فرق مٹا کر کوئی امتیاز باقی نہیں رکھا گیا ۔

نہ مے، نہ شعر، نہ ساقی، نہ شورِ چنگ و رباب
سکوتِ کوہ و لبِ جوے و لالہَ خود رُو

معانی: مے: شراب ۔ ساقی: پلانے والا ۔ شورِ چنگ و رباب: راگ رنگ کا شور ۔ سکوت: خموشی ۔ کوہ : پہاڑ ۔ لب جو: ندی کنارے ۔ لالہَ خودرو: قدرتی اگا ہوا لالہ کا پھول ۔
مطلب: اس شعر میں کہا گیا ہے کہ مجھے نہ تو شعر کی ضرورت ہے نہ شراب کی، نا ہی ساقی کی اور نا ہی سازوساز نغمہ کی اس کے برعکس میں تو پہاڑ کے دامن کا سکوت ندی کا کنارا اور اس پر اگے ہوئے خودرو لالے کے پھولوں کا خواہاں ہوں کہ یہی وہ اشیاَ ہیں جو میرے قلب و روح کے لیے باعث سکو ن و اطمینان ہو سکتی ہیں ۔

گدائے مے کدہ کی شانِ بے نیازی دیکھ
پہنچ کے چشمہَ حیواں پہ توڑتا ہے سبو

معانی: گدائے میکدہ: میکدے کا فقیر ۔ بے نیازی: بے پروائی ۔ چشمہَ حیواں : دائمی زندگی دینے والا پانی کا چشمہ ۔ سبو: پیالہ ۔
مطلب: یہاں اقبال کا کہنا ہے کہ میں ایک ایسا درویش ہوں جس کی بے نیازی کا یہ عالم ہے کہ آب حیات کے چشمے پر پہنچ کر بھی اس کا ایک قطرہ پینے سے بھی اجتناب کرتا ہے اور اس کے جملہ لوازمات سے بھی بیگانہ بن چکا ہے ۔

مرا سبوچہ غنیمت ہے اس زمانے میں
کہ خانقاہ میں خالی ہیں صوفیوں کے کدو

معانی: سبوچہ: چھوٹا سا پیالہ ۔ غنیمت: جو مل جائے اس پر کفایت کرنا ۔ خالی ہیں صوفیوں کے کدو: صوفی لوگ بھی علم سے خالی ہیں ۔ کدو: برتن ۔
مطلب: اس عہد کم سواد میں تو میری محدود فکر سے پیدا ہونے والی روشنی کو ہی غنیمت سمجھ کہ اس عہد کے اہل صفا تو علم وہنر کی روشنی سے محروم و بیگانہ ہو چکے ہیں بالفاظ دگر یہ عہد شعور سے خالی ہو گیا ہے ۔

میں نو نیاز ہوں ، مجھ سے حجاب ہی اولیٰ
کہ دل سے بڑھ کے ہے میری نگاہ بے قابو

معانی: نو نیاز: نیا مرید ۔ حجاب: پردہ ۔ اولیٰ: بہتر ہے ۔ نگاہ بے قابو: نگاہ پرقابو نہیں ۔
مطلب: علامہ اقبال اس شعر میں عشق الہٰی کے اس ابتدائی مرحلے کی طرف اشارہ کرتے ہیں جہاں ایک نیاز مند قربت خدا اور اس کے جلوے کی تمنا کر سکے اس لیے کہ ایسے میں چاہنے والے کی نگاہ بھی دل سے زیادہ مضطرب اور بے قرار ہوتی ہے جس پر قابو پانا محال ہوتا ہے ۔ اس شعر میں اقبال نے عشق الہٰی کے ابتدائی ایام کی اضطرابی کیفیت کی جانب اشارہ کیا ہے ۔

اگرچہ بحر کی موجوں میں ہے مقام اس کا
صفائے پاکیِ طینت سے ہے گہر کا وضو

معانی: بحر: سمندر ۔ موجوں : لہروں ۔ طینت: فطرت کی پاکبازی ۔ گہر: موتی ۔
مطلب: یہ درست ہے کہ موتی کا اصل مقام سمندر میں ہوتا ہے جہاں ہر لمحے اس کا واسطہ سمندر کے پانی سے ہوتا ہے اس کے باوجود اس کی فطرت کی پاکیزگی ہی اسے مصفا بناتی ہے ۔ اس شعر میں اقبال کا اشارہ اس حقیقت کی جانب ہے کہ انسان کو کتنا ہی اچھا ماحول ملے کہیں اس کی فطرت میں موجود پاکیزگی ہی اس کی عظمت و صفا کا سبب بنتی ہے ۔

جمیل تر ہیں گل و لالہ فیض سے اس کے
نگاہِ شاعرِ رنگیں نوا میں ہے جادو

معانی: جمیل: خوبصورت ۔ گل و لالہ فیض: گلاب اور لالے کے پھول اس کے عطا سے خوبصورت ہیں ۔
مطلب: یہ ایک خوبصورت اور باصلاحیت شاعر کی صلاحیتوں کا کمال ہے کہ جب وہ اپنے اشعار میں پھولوں کا ذکر کرتا ہے تو اس کے تخلیقی فیض کے سبب یہ پھول بھی زیادہ شاداب و خوش رنگ نظر آتے ہیں ۔

————————-

Translation

Mitta Diya Mere Saqi Ne Alam-E-Mann-o-Tu
Pila Ke Mujh Ko Mai-e-‘La ILLAHA ILLAH HOO’

Na Mai, Na Shair, Na Saqi, Na Shor-E-Ching-o-Rabab
Sakoot-e-Koh-o-Lab-e-Jooy-e-Lala’ay Khudroo !

Gada’ay May Kudah Ki Shan-e-Be-Niazi Dekh
Pohanch Ke Chashma’ay Hiwan Pe Torhta Hai Saboo !

Mera Saboocha Ghanimat Hai Iss Zamane Mein
Ke Khanqah Mein Khali Hain Sufiyon Ke Kadoo

Mein No Niaz Hun, Mujh Se Hijab Hi Aola
Ke Dil Se Barh Ke Hai Meri Nigah Be Qaboo

Agarcha Behar Ki Moujon Mein Hai Maqam Uss Ka
Safa’ay Paki Tiniat Se Hai Guhar Ka Wazoo

Jameel Tar Hain Gul-o-Lala Faiz Se Uss Ke
Nigah-e-Shayar-e-Rangeen Nawa Mein Hai Jadoo

———————-

My Saki made me drink the wine of ‘There is no god but He’:
From the illusive world of sense, This cup divine has set me free.

Now I find no charm or grace In song and ale, or harp and lute:
To me appeal the tulips wild, The riverside and mountains mute.

Look at the highness/power of Independence by a Tavern’s astute (Fakir)
As He breaks his flagon after reaching at Fountain of Life (Water of Life)

My flagon small is blessing great, For the age athirst and dry:
In the cells where mystics swell big empty gourds are lying by.

In love a novice I am yet, Much good for you to keep apart,
For my glance is restive more than my wild and untam’d heart.

The dark unfathomed caves of sea, Hold gems of purest ray serene:
The gems retain in midst of brine their essence bright and clean.

Through the poet’s quickening gaze the rose and tulip lovelier seem:
No doubt, the minstrel’s piercing glance is nothing less than magic gleam.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button