اسلام اور مسلمانعلامہ اقبال شاعری

اے پير حرم

اے پیرِ حرم! رسم و رہِ خانقہی چھوڑ
مقصود سمجھ میری نوائے سحری کا

معانی: پیر حرم: کعبہ، اللہ کا گھر ۔ رسم و رہ: طور طریقے، تعلق ، واسطہ ۔ خانقہی: خانقاہ کا نظام ۔ نوائے سحری: صبح کی آواز ۔
مطلب: اے مسلمانوں کے راہنماوَ (خواہ تمہارا تعلق دین سے ہے یا تصوف سے) یہ دور تم سے عمل کا تقاضا کرتا ہے ۔ اپنی خانقاہوں اور مسجدوں سے نکل کر مسلمان قوم کو بیدار کرنے کی تدبیر کرو ۔ میں صبح کے وقت اللہ کے حضور اس مقصد کے لیے جو دعائیں اور فریادیں کرتا ہوں ان کو سمجھو اور میری شاعری میں جو مسلمانوں کی بیداری کے لیے پیغام ہے اس پر عمل کرو ۔

اللہ رکھے تیرے جوانوں کو سلامت
دے ان کو سبق خود شکنی، خود نگری کا

معانی: خود شکنی: خود کو توڑنا، قربان ہونا یا اندر کے بت توڑنا ۔ خود نگری: اپنے آپ کو پہچاننا ۔
مطلب: اے مسلمانوں کے راہنماوَ تمہاری قوم کے جوان اور نئی نسل بڑے کام کی چیز ہے ان میں بڑے جوہر ہیں ۔ صرف ان پر کام کرنے کی ضرورت ہے پھر دیکھیے یہی نوجوان نسل جس سے تم دور رہتے ہو اسلام کے لیے کیا کیا اعجازی کام کرتی ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک تو ان کو اپنے آپ میں مست رہنے اور تکبر و غرور کے نشے سے بچاوَ اور دوسرے ان میں خود شناسی اور اپنی پہچان کا جذبہ پیدا کرو ۔

تو ان کو سکھا خارہ شگافی کے طریقے
مغرب نے سکھایا انھیں فن شیشہ گری کا

معانی: خارہ شگافی: پتھر توڑنا، باطن کی قوت ۔ شیشہ گری: شیشہ بنانا، ظاہری پرستی، نزاکت ۔
مطلب: مغربی قوموں نے مسلمان نوجوانوں کو ایک خاص منصوبہ اور سازش کے تحت تعلیمی، تہذیبی اور ثقافتی شراب میں ملا کر مسلم کش اور اسلام نفور زہر پلا دیا ہے اور ان کو شیشے کی طرح نازک بنا دیا ہے یعنی آرام طلب اور عمل سے گریز کرنے والا بنا دیا ہے ۔ تم اے مسلمانوں کے راہنماوَ! چاہے تمہارا تعلق جلوت سے ہے اور چاہے خلوت سے ہے ان کو سخت بنا دو اور ایسا سخت کہ وہ سخت پتھروں میں بھی سوراخ کر ڈالیں ۔ بڑے سے بڑے عمل سے گریز نہ کریں ۔ بڑی سے بڑی مہم سر کرنے سے نہ رکیں اور نہ ڈریں ۔

دل توڑ گئی ان کا دو صدیوں کی غلامی
دارو کوئی سوچ ان کی پریشاں نظری کا

معانی: یریشاں نظری: نگاہ اور خیالات کا پریشان رہنا ۔
مطلب: مسلمانوں نے بارہ سو سال تک مشرق و مغرب پر حکومت کی ہے اور جملہ اقوام کو نور و دانش اور علم کے زیور سے آراستہ کیا ہے ۔ پچھلے دو سو سال سے مسلمانوں کے ممالک پر مغربی اقوام کی برتری اور قبضہ ہے ۔ انھوں نے مسلمانوں کے برعکس اپنی مفتوح اقوام کو حیوانیت، بے حیائی اور تہذیب کے پردے میں جہالت سے آشنا کیا ہے ۔ جس کے نتیجے میں مسلمانوں کے نوجوان بھی ان کے اثرات کے زخم کھائے بیٹھے ہیں اور ان کے افکار و خیالات حرم کے مرکز سے ہٹ کر فرنگیوں کے دیے ہوئے نظریات کے مندروں میں بھٹک رہے ہیں ۔ علامہ مسلمان رہنماؤں کو یہ یقین دلانا چاہتے ہیں کہ قصور مسلمان نوجوان کا نہیں جن سے تم دور رہتے ہو ۔ قصور اس دو سو سالہ محکومی کا اور اس دوران مغربی تہذیب کے اثرات کا ہے کہ وہ پریشان خیال پھر رہے ہیں ۔ تم ان سے رابطہ پیدا کرو ان کو پھر سے مغربی مندر سے نکال کر حرم کعبہ سے وابستہ کر دو ۔

کہہ جاتا ہوں میں زورِ جنوں میں ترے اسرار
مجھ کو بھی صلہ دے مری آشفتہ سری کا

معانی: اسرار: بھید ۔ صلہ: انعام ۔ آشفتہ سری: دیوانگی، عشق ۔
مطلب: اس شعر میں اگر خدا سے خطاب ہے تو شاعر اس سے صلہ مانگ رہا ہے ۔ اگر پیر حرم سے شاعر مخاطب ہے تو اپنی بات کا معاوضہ اس سے طلب کر رہا ہے ۔ دونوں صورتیں ہو سکتی ہیں ۔ بہرحال شاعر کہہ رہا ہے کہ میں نے اپنے جوش جنوں میں تیرے چھپے ہوئے بھید ظاہر کر دیے ہیں ۔ میرے اس جنوں کا کچھ معاوضہ تو ملنا چاہیے اور پیر حرم کو یا خدا کو نوجوانوں کی ڈوبی ہوئی کشتی کو پار لگانا چاہیے ۔ یہ اگر ہو جائے تو میں سمجھوں گا کہ مجھے میری محنت کا میرے پیغام کا اور میرے عشق کا صلہ مل گیا ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button