با ل جبر یل - رباعيات

ترے شیشے میں مئے باقی نہیں ہے

ترے شیشے میں مے باقی نہیں ہے
بتا کیا تُو مرا ساقی نہیں ہے

مطلب: اقبال نے اس رباعی میں بھی گلہ مندی کا رویہ اختیار کیا ہے تاہم ابتدائی شعر میں قدرے طنز بھی ہے ۔ خداوند عزوجل سے مخاطب ہوتے ہوئے اقبال استفسار کرتے ہیں کہ قادر مطلق ہونے کے باوجود تو ضرورت مندوں کی پوری طرح کفالت کیوں نہیں کرتا ۔

سمندر سے ملے پیاسے کو شبنم
بخیلی ہے یہ رزاقی نہیں ہے

معانی: تمثیلی سطح پر اگر سمندر کسی پیاسے کی تشنگی رفع کرنے کے لیے محض ایک قطرہ آب فراہم کرتا ہے تو اس سے اس کی پیاس کیسے بجھ سکتی ہے ۔ اس عمل کو تو رزاقی کی جگہ کنجوسی سے تعبیر کیا جانا چاہیے ۔

—————————-

Transliteration

Tere Shishe Mein May Baqi Nahin Hai
Bata, Kya Tu Mera Saqi Nahi Hai
Samundar Se Mille Piyase Ko Shabnam
Bakheeli Hai Ye Razzaqi Nahin Hai
——————————-

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button