سیاسیات مشرق و مغربعلامہ اقبال شاعری

انقلاب

نہ ایشیا میں نہ یورپ میں سوز و سازِ حیات
خودی کی موت ہے یہ اور وہ ضمیر کی موت

معانی: سوز وسازحیات: زندگی میں عشق کی حرارت اور اس کی کیفیات کا لطف ۔ ضمیر: دل یا انسان کا باطن ۔
مطلب: علامہ کہتے ہیں میں نے ایشیا کے ملکوں کو بھی دیکھا ہے اور یورپ کے ملکوں میں بھی پھرا ہوں دونوں جگہ مجھے تو کسی کی زندگی میں عشق کی حرارت اور اس کی کیفیات کا لطف نظر نہیں آیا ۔ میں نے ایشیا میں دیکھا ہے کہ لوگ غلامی کی وجہ سے اپنی شناخت اور معرفت پر موت طاری کر چکے ہیں ۔ یورپ والوں کو دیکھا ہے کہ وہ آزاد تو ہیں لیکن ان کی مادر پدر آزادی کی بنا پر ان کے دل مردہ اور ان کے باطن سیاہ ہو چکے ہیں اور ہر طرف بے دینی اور خدا نا آشنائی کا دور دورہ ہے ۔ ان حالات میں زندگی کے سوز و ساز کی نہ ایشیا والوں سے کوئی امید رکھی جا سکتی ہے اور نہ یورپ والوں سے ۔

دلوں میں ولولہَ انقلاب ہے پیدا
قریب آ گئی شاید جہانِ پیر کی موت

معانی: ولولہ انقلاب: تبدیلی کا جوش ۔ جہان پیر: بوڑھا جہان یعنی پرانی دنیا ۔
مطلب: ایشیا اور یورپ میں سوز و ساز حیات کے نہ ہونے کا یہ نتیجہ نکل رہا ہے کہ زندگی کی صحیح منزل پر پہنچنے والے لوگوں کے دلوں میں تبدیلی کا ایک جوش پیدا ہو رہا ہے اورو وہ ایک نئے جہان کی پیدائش کی امید رکھے ہوئے ہیں جس سے کہ اس پرانی دنیا کی موت یقینی ہے ۔ معلوم ہوتا ہے لوگ پھر سے سوز و ساز زندگی کی تلاش میں نکلنے کے لیے بے تاب ہیں ۔ یہ سرمایہ حیات نہیں نہ اشتراکی نظام میں ملے گا اور نہ سرمایہ دارانہ نظام میں بلکہ خدا کے نظام میں ملے گا جس کا دوسرا نام اسلام ہے ۔ اور یہی حقیقی انقلاب ہو گا جس میں یورپ اور ایشیا دونوں جگہوں کے لوگوں کی فلاح کا سامان موجود ہو گا ۔

محمد نظام الدین عثمان

نظام الدین، ملتان کی مٹی سے جڑا ایک ایسا نام ہے جو ادب اور شعری ثقافت کی خدمت کو اپنا مقصدِ حیات سمجھتا ہے۔ سالوں کی محنت اور دل کی گہرائیوں سے، انہوں نے علامہ اقبال کے کلام کو نہایت محبت اور سلیقے سے جمع کیا ہے۔ ان کی یہ کاوش صرف ایک مجموعہ نہیں بلکہ اقبال کی فکر اور پیغام کو نئی نسل تک پہنچانے کی ایک عظیم خدمت ہے۔ نظام الدین نے اقبال کے کلام کو موضوعاتی انداز میں مرتب کیا ہے تاکہ ہر قاری کو اس عظیم شاعر کے اشعار تک باآسانی رسائی ہو۔ یہ کام ان کے عزم، محبت، اور ادب سے گہری وابستگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس کے ساتھ ہی، انہوں نے دیگر نامور شعرا کے کلام کو بھی یکجا کیا ہے، شاعری کے ہر دلدادہ کے لیے ایک ایسا وسیلہ مہیا کیا ہے جہاں سے وہ اپنے ذوق کی تسکین کر سکیں۔ یہ نہ صرف ایک علمی ورثے کی حفاظت ہے بلکہ نظام الدین کی ان تھک محنت اور ادب سے محبت کا وہ شاہکار ہے جو ہمیشہ زندہ رہے گا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button