ارمغان حجاز - رباعیاتعلامہ اقبال شاعری

کہن ہنگامہ ہائے آرزو سرد

(Armaghan-e-Hijaz-15)

Kuhan Hangama Haye Arzoo Sard

(کہن ہنگامہ ہاے آرزو سرد)

The old flame of desires has grown cold

 

کہن ہنگامہ ہائے آرزو سرد
کہ ہے مردِ مسلماں کا لہو سرد

معانی: کہن: پرانے ۔ ہنگامہ ہائے آرزو: آرزو کے ہنگامے ۔ سرد: ٹھنڈے ۔
مطلب: اس رباعی کے شروع میں علامہ کہتے ہیں کہ قدیم مسلمانوں میں اسلام کی سربلندی کے لیے جو آرزوئیں موجود تھیں اب ختم ہو گئی ہیں اور اس کی وجہ سے آج کے مسلمان کی رگوں میں وہ خون سرد ہو کر رہ گیا ہے جو اسے دین و دنیا دونوں میدانوں میں سرگرم عمل رکھتا تھا ۔

——————-

بتوں کو میری لادینی مبارک
کہ ہے آج آتشِ اللہ ہُو سرد

معانی: لادینی: بے دینی، دین کا نہ ہونا ۔ آتش اللہ ھو: اللہ ھو کی آگ ۔ اللہ ھو: وہی اللہ سب کچھ ہے ۔
مطلب: کبھی مسلمان اللہ ھو کے ذکر سے غیر اللہ کے بتوں کو پاش پاش کر دیا کرتا تھا اس کا اٹھنا، سونا جاگنا، کھانا پینا غرض کہ زندگی کا ہر پہلو اللہ کا نقش لیے ہوئے ہوتا تھا ۔ آج یہ ذکر اس کے ہونٹوں پر بطور الفاظ کے تو کہیں ضرور ہو گا لیکن اس کے روح ان میں موجود نہیں ہے ۔ اس لب آشنا اور دل نآشنا ذکر کا لازمی نتیجہ یہ نکلا ہے کہ مسلمان کے سینے میں اللہ کی بجائے غیر اللہ نے جگہ بنا لی ہے ۔ اس کے دل میں جہاں صرف خدا آباد ہونا چاہیے تھا نفس کے بت سجے ہوئے ہیں اور وہ شب و روز ان کے آگے جھک رہا ہے ۔ یہ سبب ہے کہ وہ دین اور دنیا دونوں میدانوں میں بازی ہار چکا ہے ۔ بتوں کو مبارک ہو کہ وہ مسلمان جو تمہیں پاش پاش کرنے کے لیے تیار رہتا تھا خود تمہارے آگے جھکا ہوا ہے ۔ بتوں سے مراد یہاں مٹی اور پتھر کے بت نہیں بلکہ غیر اللہ کے بت مراد ہیں ۔ وہ بت جنہیں ہمارا نفس ہر وقت جنتا رہتا ہے ۔ حرص، شہوت، خیانت، محبت ، دولت، نفاق، غیبت، چغلی، ملاوٹ، چوری، ڈکیتی، فساد ، غرض کہ اس قسم کے سینکڑوں بت ہیں جو آج مسلمان کے نفس نے تراش کر اس کے کعبہ دل میں رکھے ہوئے ہیں ۔ ان بتوں کو آج کے اس مسلمان سے جو اللہ کی راہ سے بھٹک چکا ہے کوئی خطرہ نہیں ۔

——————-

Transliteration

Kuhan Hangama Ha’ay Arzoo Sard
Kh Hai Mard-e-Musalman Ka Lahoo Sard

The old flame of desires has grown cold
As the Muslims’ veins hot‐blood no longer hold.

Bouton Ko Meri La-Deeni Mubarik
Ke Hai Aaj Aatish-e-‘Allah Hoo’ Sard

Greetings to the idols for my secularism
For flame of Allah Hoo’s cheers is dead, behold!

محمد نظام الدین عثمان

نظام الدین، ملتان کی مٹی سے جڑا ایک ایسا نام ہے جو ادب اور شعری ثقافت کی خدمت کو اپنا مقصدِ حیات سمجھتا ہے۔ سالوں کی محنت اور دل کی گہرائیوں سے، انہوں نے علامہ اقبال کے کلام کو نہایت محبت اور سلیقے سے جمع کیا ہے۔ ان کی یہ کاوش صرف ایک مجموعہ نہیں بلکہ اقبال کی فکر اور پیغام کو نئی نسل تک پہنچانے کی ایک عظیم خدمت ہے۔ نظام الدین نے اقبال کے کلام کو موضوعاتی انداز میں مرتب کیا ہے تاکہ ہر قاری کو اس عظیم شاعر کے اشعار تک باآسانی رسائی ہو۔ یہ کام ان کے عزم، محبت، اور ادب سے گہری وابستگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس کے ساتھ ہی، انہوں نے دیگر نامور شعرا کے کلام کو بھی یکجا کیا ہے، شاعری کے ہر دلدادہ کے لیے ایک ایسا وسیلہ مہیا کیا ہے جہاں سے وہ اپنے ذوق کی تسکین کر سکیں۔ یہ نہ صرف ایک علمی ورثے کی حفاظت ہے بلکہ نظام الدین کی ان تھک محنت اور ادب سے محبت کا وہ شاہکار ہے جو ہمیشہ زندہ رہے گا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button