تمام عارف و عامي خودي سے بيگانہ
(Armaghan-e-Hijaz-32)
Tamam Arif-o-Aami Khudi Se Begana
(تمام عارف و عامی خودی سے بیگانہ)
All high and low are unaware of Khudi
تمام عارف و عامی خودی سے بیگانہ
کوئی بتائے یہ مسجد ہے یا کہ میخانہ
معانی: تمام: سب ۔ عارف: خدا کی پہچان کرنے والے ۔ عامی: عام آدمی ۔ خودی: اپنی پہچان کرنا ۔ بے گانہ: خالی ۔ مسجد: مسلمانوں کی عبادت کی جگہ ۔ میخانہ: شراب خانہ ۔
مطلب: علامہ نے اس شعر میں عہد حاضر کے کشمیری مسلمانوں کو خصوصاً اور دنیا کے سارے مسلمانوں کو عموماً پیش نظر رکھتے ہوئے کہا ہے کہ آج کے مسلمان چاہے ان میں خدا تک پہنچنے کا دعویٰ کرنے والے صوفی و عالم کیوں نہ ہوں اپنی معرفت اور اپنے خدا کی معرفت سے بے گانہ ہیں ۔ عام مسلمان آدمی کی بات چھوڑئے جب خواص کا یہ حال ہے تو مسلمان بحیثیت فرد اور بحیثیت قوم اگر ذلت اور غلامی کی زندگی بسر کر رہا ہے تو اس میں حیرانی کیا ہے ۔ اگر مسلمان کو معلوم ہوتا کہ اللہ نے ان کا کیا مرتبہ بنایا ہے اور ان کے ذمہ دنیا کو ہدایت پر رکھنے کے لیے کیا فراءض عائد ہیں تو وہ ان کے پیش نظر اپنی زندگیوں کو ڈھالتے ہوئے غلامی کی بجائے حکمرانی کا فریضہ ادا کر رہے ہوتے ۔ آج کے مسلمان نے مسجد کو شراب خانہ بنا رکھا ہے ۔ مراد یہ نہیں کہ واقعی وہاں شراب بکتی اور پی جاتی ہے بلکہ مراد یہ ہے کہ مسلمان نے اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں اللہ کے احکام کو چھوڑ کر غیر اللہ کے احکام کو نافذ کر رکھا ہے ۔ جن مسلمانوں کو قرآن و شریعت کی روشنی میں زندگی بسر کرتے ہوئے دوسروں کی راہنمائی کرنی چاہیے تھی وہ آج خود دوسروں کی راہنمائی میں زندگی گزار رہے ہیں ۔ اور اس طرح مسلمان ہوتے ہوئے اسلامی کی بجائے غیر اسلامی ماحول میں سانس لے رہے ہیں ۔
——————————–
یہ راز ہم سے چھپایا ہے میرِ واعظ نے
کہ خود حرم ہے چراغِ حرم کا پروانہ
معانی: راز: بھید ۔ میر واعظ: وعظ سے مراد دینی نصیحت ۔ میر واعظ: بڑا نصیحت کرنے والا ۔ حرم: کعبہ ۔ چراغ کعبہ: کعبہ کا دیا، شمع ۔ پروانہ: پتنگا ۔
مطلب: کشمیری دینی حلقہ میں وعظ کرنے والوں میں بڑے واعظ کا لقب چونکہ میر واعظ ہے اس لیے اس شعر میں کشمیر کے بڑے واعظ کے حوالے سے خصوصاً اور ہر جگہ کے مسلمان واعظوں کے متعلق عموماً یہ بات کہی گئی ہے کہ اس نے مسلمانوں کی راز کی یہ بات نہیں بتائی کہ کعبہ خود اپنے چراغ کا پتنگا ہے ۔ یہاں کعبہ کنایہ یا اشارہ ہے اللہ تعالیٰ کی طرف اور چراغ حرم کنایہ یا اشارہ ہے اللہ سے محبت کرنے والے مسلمانوں کی طرف ۔ قرآن و حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ جو مسلمان اللہ سے شدید محبت کرتے ہیں اللہ ان سے محبت کرتا ہے ۔ یہ ایسی پتہ کی بات ہے جس کو اگر ہمارے واعظ ہمیں بتاتے تو ہم اللہ کو چھوڑ کر غیر اللہ کی محبت میں گرفتار نہ ہوتے اورا سکے نتیجے میں غلامی کی زندگی بسر نہ کرتے اور ذلیل و خوار نہ ہوتے ۔
——————————-
طلسمِ بے خبری، کافری و دیں داری
حدیثِ شیخ و برہمن فسوں و افسانہ
معانی: طلسم: جادو ۔ بے خبری: بے عملی ۔ کافری: خدا کا انکار کرنا، غیر اسلامی ۔ دینداری: خدا کا اقرار کرنا ۔ حدیث: کہانی، داستان ۔ شیخ: مسلمانوں کا مذہبی راہنما ۔ برہمن: ہندووَں کا مذہبی رہنما ۔ فسون: جادو ۔ افسانہ: خیالی کہانی ۔
مطلب: آج کل کے مسلمان علما بے علمی کے جادو میں گرفتار معلوم ہوتے ہے اور دین اور بے دینی میں واضح تمیز سے ناواقف دکھائی دیتے ہیں ۔ شیخ اور برہمن میں فرق کی داستان جادو کی اور خیالی کہانی کی سی رہ گئی ہے ۔ مسلمان علما دین کی صحیح روح سے بے خبری اور بے علمی کی بدولت مسلمانوں کو کافر بنانے پر تلے ہوئے ہیں ۔ اگرچہ وہ خود کافرانہ روایات کے پرستار نظر آتے ہیں ۔
———————–
نصیبِ خطہ ہو یارب وہ بندہَ درویش
کہ جس کے فقر میں انداز ہوں کلیمانہ
معانی: نصیب ہو: قسمت میں ہو ۔ خطہ: علاقہ، یہاں مراد کشمیر کا علاقہ ۔ بندہ درویش: فقیر، ولی ۔ فقر: درویشی، ولایت ۔ انداز: اسلوب، طریقہ ۔ کلیمانہ: حضرت موسیٰ کی طرح اللہ تعالیٰ سے کلام کرنا ۔
مطلب: اس شعر میں علامہ نے ملا ضیغم لولابی کی زبان سے آرزو کی ہے اور اللہ سے دعا مانگی ہے کہ یا رب کشمیر کے علاقہ میں کوئی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرح کا زمانے کے فرعونوں سے ٹکر لینے والا درویش بھیج جو کشمیریوں کو ہندووَں کے راج سے اسی طرح نجات دلائے جس طرح حضرت موسیٰ کلیم اللہ نے بنی اسرائیل کو فرعون کی غلامی سے نجات دلائی تھی ۔ ظاہر ہے مسلمان درویش، جو بخود فانی اور بحق باقی ہوتا ہے پیغمبر تو نہیں ہوتا لیکن پیغمبروں کے علم اور روایات کا وارث ہونے کی بنا پر اس کی زندگی کا انداز پیغمبرانہ ہوتا ہے ۔
————————
چھپے رہیں گے زمانہ کی آنکھ سے کب تک
گہر ہیں آبِ ولر کے تمام یک دانہ
معانی: گہر: موتی ۔ آب: پانی ۔ ولر: کشمیر کی ایک جھیل کا نام ۔
مطلب: کشمیر کے دارالحکومت سرینگر کے قریب ولر نامی جو جھیل ہے اس کے سارے موتی سڈول ہموار اور بے مثل ہیں ان کی صحیح شناخت اور ان کی قیمت زمانے کے جوہریوں سے کبھی تک چھپی رہے گی ۔ یہاں جھیل ولر کیایہ ہے خطہ کشمیر کی طرف اور گہر کنایہ ہے کشمیریوں کی طرف جوبے مثل موتیوں کی طرح اپنے اندر بہت سی خوبیاں اور صلاحتیں رکھتے ہیں لیکن غلامی کی وجہ سے ان کی یہ صلاحتیں بروئے کار نہیں آ رہی ہیں اور ان کی خوبیاں اجاگر نہیں ہو رہی ہیں ۔ خدا کرے انہیں آزادی کی فضا میں سانس لینا نصیب ہو تا کہ ان کے پوشیدہ جوہر دنیا والوں کے سامنے آ سکیں ۔
——————————–
Translitation
Tamam Arif-O-Ami Khudi Se Begana
Koi Bataye Ye Masjid Hai Ya K Maikhana
All high and low are unaware of khudi:
is it a mosque or tavern?
Ye Raaz Hum Se Chupaya Hai Meer Waaiz Ne
Ke Khud Haram Hai Charagh-E-Haram Ka Parwana
The head preacher has withheld this secret from us:
the Harem itself is the moth moving round Harem’s lamp.
Tilism-E-Bekhabri, Kafari-O-Deendari
Hadees-E-Sheikh-O-Barhaman Fusoon-O-Afsana
Faith and kufr, only talisman of ignorance,
talking of Shaykh and Brahman is all myth;
Naseeb-E-Khitta Ho Ya Rab Woh Band’ay Darvesh
Ke Jis Ke Faqr Mein Andaz Hon Kaleemana
O God, may the valley have a dervish
Whose faqr works Moses‐like;
Chupay Rahain Ge Zamane Ki Ankh Se Kab Tak
Guhar Hain Aab-E-Woolar Ke Tamam Yakdana
How long would they remain hidden from the world?
The unique gems that the Wooler Lake has in its depth.
—————————