قوموں کی حیات ان کے تخیل پہ ہے موقوف
یہ ذوق سکھاتا ہے ادب مرغِ چمن کو
معانی: مہدی: امام مہدی آخر الزمانی، مسلمانوں کا یہ یقین ہے کہ قیامت سے پہلے مسلمانوں کو دوبارہ عروج پر لانے کے لیے ایک شخص پیدا ہو گا جس کا نام امام مہدی ہو گا ۔ تخیل: خیالات ۔ مرغِ چمن: چمن کا پرندہ ۔
مطلب: قوموں کی زندگی ان کے خیالات و افکار اور نصب العین کے مطابق ہوتی ہے ۔ نصب العین کے بغیر کوئی قوم، قوم نہیں بنتی ۔ یہ نصب العین ہی ہے جو باغ کے پرندوں کو ادب سکھاتا ہے ۔ اگر پرندوں تک میں نصب العین موجود ہے تو آدمی میں تو ضرور ہونا چاہیے ۔ یہ نصب العین اگر فرد میں ہو گا تو جماعت میں بھی ہو گا ۔
مجذوبِ فرنگی نے باندازِ فرنگی
مہدی کے تخیل سے کیا زندہ وطن کو
معانی: مجذوب فرنگی: فرنگیوں کا یا یورپ کا ایک مفکر نٹشے جس کا تعلق جرمنی سے تھا اور اس نے اہل جرمن کو یہ نظریہ دے کر کہ تم ساری دنیا کی قوموں سے برتر ہو مہدی کا سا کام کیا اور پوری جرمن قوم میں بیداری پیدا کر دی اور اس کے اندر یہ جوش اور ولولہ پیدا کر دیا کہ تم سب قوموں پر حکمرانی کے لیے پیدا ہوئے ہو ۔ لیکن یہ تصور چونکہ فطری اور اسلامی تصور کے مطابق نہ تھا اس لیے اقبال نے اس کی بات کو بڑ کہا ہے اور اس بڑ مارنے والے کو مجذوب ۔
مطلب: اس شعر کے مطلب کو سمجھنے کے لیے اوپر کی گئی نٹشے کے متعلق تشریح کو پیش نظر رکھیں اور سمجھیں کہ نٹشے نے مہدی وطن بن کر اپنی قوم کو اس حد تک جگا دیا کہ انہیں فوق البشر بنا دیا ۔ سب انسانوں سے بالا انسان بنا کر رکھ دیا اور اپنے وطن کے لوگوں میں زندگی کی روح پھونک دی ۔ حالانکہ فوق البشر اگر کوئی ہو سکتا ہے تو وہ مسلمان ہو سکتا ہے بشرطیکہ وہ بندہَ مومن کی حقیقت کو سمجھے اور اس حقیقت کو پائے ۔ نطشے کا فوق البشر صرف بدنی طاقتوں والا بشر تھا ۔ روح اس سے غائب تھی اس نے فرنگی انداز میں اس بشر کی تعمیر کی ۔ اسلام کے انداز میں کرتا تو بات بھی تھی ۔
اے وہ کہ تو مہدی کے تخیل سے ہے بیزار
نومید نہ کر، آہوئے مشکیں سے ختن کو
معانی: بیزار: اکتایا ہوا، نفرت کرنے والا ۔ نومید: نا امید، مایوس ۔ آہوئے مشکیں : مشک والا ہرن ۔ ختن: وسط ایشیا کا ایک علاقہ جہاں کے ہرن نافہ مشک کے لیے مشہور ہیں ۔ تخیل: تصور، عقیدہ ۔
مطلب: اس دور میں مسلمانوں میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو مہدی کے تخیل کو بے بنیاد خیال کرتے ہیں ۔ ان لوگوں کو خطاب کرتے ہوئے علامہ کہتے ہیں کہ مسلمانوں کو مہدی کے عقیدے سے بیزار کر دینا ایسا ہی ہے جیسے کہ ملک ختن کو مشک والے ہرنوں سے خالی کر دینا ۔ مراد یہ ہے کہ اس تصور نے اگر جرمن جیسی غیر مسلم قوم میں بیداری کی لہر دوڑا دی تھی تو کوئی وجہ نہیں کہ یہاں بھی کوئی امام مہدی پیدا ہو کر ان میں بیداری پیدا کر دے اور ان میں یقین پیدا کر دے کہ تم سب قوموں سے افضل ہو اور اللہ کا فرمان ہے کہ اگر تم مومن ہو تو سب پر فائق ہو ۔ شرط مومن ہونے کی ہے اور یہ خصوصیات ایمان کوئی مہدی بن کر آئے گا تو پیدا کر دے گا ۔
ہو زندہ کفن پوش تو میّت اسے سمجھیں
یا چاک کریں مردکِ ناداں کے کفن کو
معانی: میت: مردہ ۔ مردکِ ناداں : نادان آدمی ۔
مطلب: اقبال نے پہلے ایک اصول بیان کیا ہے اور وہ یہ کہ اگر ایک زندہ شخص کفن پہن لے تو وہ مردہ نہیں ہو گا ۔ مردہ ہونے کا فریب دکھائے گا ۔ اس کو یہ جتانے کے لیے کہ تو مردہ نہیں ہے بلکہ بے وقوفی سے خود کو مردہ سمجھ رہا ہے اس کے کفن کو اس کے جسم سے اتار دینے کی ضرورت ہے تا کہ وہ نادان خود کو مردہ کے بجائے زندہ سمجھنے لگے ۔ یہ اصول بیان کر کے اقبال یہ کہنا چاہتے ہیں کہ مسلمان قوم زندہ ہے اس نے اپنی کمزوری کا فریب خوردہ کفن پہن رکھا ہے اور عمل اور ترقی کرنے سے بے گانہ اور بے زار ہو چکی ہے ۔ اب ضرورت ہے کہ اس کفن کو پھاڑ کر اسے احساس دلایا جائے کہ تو مردہ نہیں زندہ ہے اور تجھ میں زندہ قوموں کی طرح رہنے کی صلاحیت موجود ہے ۔ یہ کام کوئی معمولی آدمی نہیں کر سکتا ۔ مہدی کے مرتبہ اور طاقت والا کر سکتا ہے ۔ اس کے لیے مسلمان قوم کو سچے مہدی کی ضرورت ہے ۔ جھوٹے مہدیوں کی نہیں جو قوم کو پہلے سے خراب کر دیتے ہیں ۔