با ل جبر یل - منظو ما ت

مسجد قرطبہ

مسجد قرطبہ

سلسلہَ روز و شب نقش گرِ حادثات
سلسلہَ روز و شب، اصلِ حیات و ممات

مطلب: علامہ اقبال کی شاعری کے بیشتر حصے میں مسلم عہد کے سپین کو بڑی اہمیت حاصل ہے ۔ وہ اس عہد میں مسلمانوں کے عروج و زوال سے بری طرح متاثر نظر آتے ہیں ۔ وہ 1934ء میں تیسری گول میز کانفرنس میں شرکت کے لیے یورپ گئے تو بعد میں ہسپانیہ کا دورہ بھی کیا اور اموی عہد کے آثار قدیم بھی دیکھے ۔
اس شعر میں اقبال کہتے ہیں کہ روز و شب کی داستان عہد کے حوالے سے یوں بیان کی جا سکتی ہے کہ اس میں فنا و بقا کے بنیادی سلسلے کے حوالے سے ہی صورت حال کی تفہیم ممکن ہے ۔ یعنی دن اور رات کے عرصے میں کتنے ہی بچے جنم لیتے ہیں اور کتنے ہی لوگ وفات پا جاتے ہیں ۔ یہی عمل قدرت کے نظام کا حقیقی روپ ہے چنانچہ اس پس منظر میں دیکھا جائے تو ہمارے روز و شب یعنی زمانہ ہی زندگی اور موت کا حقیقی سرچشمہ ہے ۔

سلسلہَ روز و شب ، تارِ حریر دو رنگ
جس سے بناتی ہے ذات اپنی قبائے صفات

معانی: تارِ حریر دورنگ: دو رنگ کی ریشمی تار یعنی دن رات ۔
مطلب: رات اور دن کی شناخت ریشم کے دو متضاد رنگوں میں علامتوں سے ممکن ہے ۔ ریشم کے ان متضاد رنگ کے تاروں میں سیاہ رنگ رات کا مظہر ہے جب کہ سفید رنگ دن کو نمایاں کرتا ہے ۔ اس کو ذات خداوندی اور اس کی صفات سے بھی تعبیر کیا جا سکتا ہے کہ وہ خود تو نظر نہیں آتا لیکن بعض اشیا میں اس کے پرتو کی جھلک ملتی ہے ۔ ان اشیاء میں ذات باری کی صفات جزوی طور پر نمایاں ہوتی ہیں ۔ یہ تصورات اور علامتیں زمانے کے وجود سے ہی پیدا ہوئی ہیں ۔

سلسلہَ روز و شب، سازِ ازل کی فغاں
جس سے دکھاتی ہے ذات زیر و بمِ ممکنات

معانی: سلسہَ روز و شب: دن رات کی آمدورفت ۔ ازل کی فغاں : زمانہَ اولین کی آواز ۔ زیر و بم ممکنات: اوپر نیچے ہونا، امکانِ واقعات ۔
مطلب: کائنات کے آغاز کے ساتھ ہی زمانے کی تخلیق ممکن ہوئی ہے جس سے باری تعالیٰ کا مقصد انسان کو اس اتار چڑھاوَ سے آگاہ کرنا تھا جو اس راہ میں موجود ہوتے ہیں ۔ اس شعر میں بھی علامہ نے زمانے کو ساز ازل کی فغاں سے تعبیر کیا ہے کہ ساز کی طرح زمانے میں بھی اتار چڑھاوَ کا عمل جاری رہتا ہے جس کے ذریعہ قدرت متوقع امکانات کی نشاندہی کرتی ہے ۔ اس کا مقصد یہی ہے کہ انسان ان حوالوں کی روشنی میں حقیقت کو پا سکے ۔

تجھ کو پرکھتا ہے یہ، مجھ کو پرکھتا ہے یہ
سلسلہَ روز و شب، صیرفیِ کائنات

معانی: پرکھتا ہے: امتحان لیتا ہے ۔ صیرفی: صراف سونا پرکھنے والا ۔
مطلب: زمانہ ہر شے کا احتساب ہی نہیں کرتا بلکہ ایک ایسی کسوٹی کے مانند ہے جو نیک و بد کی تمیز پیدا کرتی ہے اور کھرے کھوٹے کو الگ کر دیتی ہے ۔ یہ احتسابی عمل اور کسوٹی ایسی حقیقتیں ہیں جو خواہ سب ہوں یا اور کوئی سب کے لیے ہیں اور کوئی اس سے ماورا نہیں ہے ۔

تو ہو اگر کم عیار، میں ہوں اگر کم عیار
موت ہے تیری برات، موت ہے میری برات

معانی: عیار: کھوٹا ۔ برات: قسمت ۔
مطلب: کمزور اور بے حقیقت انسان کو خواہ وہ کوئی بھی ہو زمانہ مٹا کر رکھ دیتا ہے اس کا مقدر موت کے سوا اور کچھ نہیں ۔ مراد یہ ہے کہ وقت و استحکام زندگی کی دلیل ہیں جب کہ انتشار اور کمزوری موت کی علامتیں ہیں ۔

تیرے شب و روز کی اور حقیقت ہے کیا
ایک زمانے کی رو، جس میں نہ دن ہے نہ رات

مطلب: اس سارے پس منظر اور صورت حال کے باوجود شب و روز کی حقیقت زمانے کی ایک رو کے سوا اور کچھ نہیں اور یہ ایسی رو ہے جس میں دن اور رات کا تصور باقی نہیں رہتا ۔ اس صورت میں دن اور رات کے مابین تمیز بالکل بے حقیقت شے ہے ۔

آنی و فانی تمام معجزہ ہائے ہنر
کارِ جہاں بے ثبات! کارِ جہاں بے ثبات

معانی: آنی: عارضی ، مختصر ۔ فانی: مر جانے والا ۔ بے ثبات: ناپائیدار ۔
مطلب: ہر چند کہ اس دنیا میں انسان کی ہنر مندی بے پناہ ترقی کی حامل ہے لیکن یہ ترقی عارضی ہے اور اس میں کوئی شے پائیدار نہیں ہے اور حتمی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس جہان کو ثبات نہیں ۔

اول و آخر فنا، باطن و ظاہر فنا
نقشِ کہن ہو کہ نو، منزلِ آخر فنا

مطلب: ان تمام اشعار کے پس منظر میں اقبال یہ کہتے ہیں کہ اس جہان کا اول و آخر غرض ہر شے کا مقصد فنا کے علاوہ اور کچھ نہیں ۔ یہ شعر عملاً قرآن پاک کی اس آیت کی تعبیر ہے کہ ہر ذی روح نے موت کا مزا ضرور چکھنا ہے یعنی کہ موت ہر شے کا مقدر ہے ۔ شعر کا مفہوم یہ ہے کہ آغاز ہو یا انجام ظاہر ہو یا باطن! کوئی تخلیق نئی ہو یا پرانی! بالاخر اس کی منزل فنا کے سوا اور کچھ نہیں ۔

ہے مگر اس نقش میں رنگِ ثبات دوام
جس کو کیا ہو کسی مردِ خدا نے تمام

مطلب: اس دوسرے بند میں اقبال زندگی اور موت کے مسئلے کو ایک اور زاویے سے دیکھتے ہیں کہ اس حقیقت کے باوجود کہ ہر شے فنا ہونے والی ہے تاہم اگر ایک مردِ حق پرست نے کسی نقش کی تکمیل کی ہو تو اس میں پائیداری اور استحکام کا رنگ پیدا ہو جاتا ہے ۔ ظاہر ہے کہ مردِ حق پرست کا ہر عمل رضائے الہٰی کے مطابق ہوتاہے ۔

مردِ خدا کا عمل عشق سے صاحب فروغ
عشق ہے اصلِ حیات، موت ہے اس پر حرام

معانی: صاحبِ فروغ: ترقی پانے والا ۔
مطلب: اور جو مردِ حق پرست ہوتا ہے اس کا ہر عمل رضائے الہٰی اور عشق حقیقی کے دم سے ہی پایہ تکمیل تک پہنچتا ہے ۔ اس لیے کہ عشق حقیقی تو زندگی کا وہ جوہر ہے جو موت کی دسترس سے باہر ہوتا ہے ۔ موت اس پر حرام ہوتی ہے اور یہ جذبہ عملاً زندگی کی حقیقت اور روح ہے ۔

تند و سبک سیر ہے گرچہ زمانے کی رو
عشق خود اک سیل ہے، سیل کو لیتا ہے تھام

معانی: تند و سبک سیر: تیز چلنے والی ۔ سیل: طوفانی سیلاب ۔
مطلب: ہر چند کی زمانے کی رو انتہائی تند و تیز ہے جس کے سامنے کوئی شے ٹھہر نہیں سکتی لیکن یہ بھی امر واقعہ ہے کہ عشق تو خود ایک تند و تیز سیلاب کے مانند ہوتا ہے جو ہر زمانے کے مقابل سیلاب کو روکنے کی صلاحیت کا حامل ہے یعنی عشق کا جذبہ ہر حال میں بالادست رہتا ہے ۔

عشق کی تقویم میں عصرِ رواں کے سوا
اور زمانے بھی ہیں جن کا نہیں کوئی نام

معانی: تقویم: جنتری ۔ عصرِ دوراں : زمانہ حاضر ۔
مطلب : عشق کا جذبہ اپنے دامن میں اتنی وسعت رکھتا ہے جو زمانی سطح پر عصر موجود ہی نہیں ایسے زمانوں پر بھی محیط ہے جن کو بادی النظر میں کوئی نام نہیں دیا جا سکتا اور یہ زمانے رات اور دن تک محدود نہیں ۔

عشق دمِ جبرئیل، عشق دلِ مصطفی
عشق خدا کا رسول، عشق خدا کا کلام

معانی: دم: سانس ۔
مطلب: اس شعر میں اقبال اپنے مخصوص انداز میں عشق حقیقی کو مختلف زاویوں اور کرداروں کے حوالے سے دیکھتے ہوئے اس کی ہمہ گیر جہتوں کو حضرت جبرئیل ا میں ، حضور سرور کائناتﷺ کے علاوہ پیغمبرو ں اور کتاب خدا کے حوالوں سے دیکھتے ہیں ۔ ان کے نزدیک عشق حقیقی محض ایک پاکیزہ جذبہ ہی نہیں بلکہ اس کی کسی فرشتے تک رسائی ہو تو جبرئیل ا میں کی سانس اور آواز بن جاتا ہے ۔ پیغمبر تک پہنچ ہو تو حضرت محمد مصطفیﷺ کے دل کی دھڑکن بن جاتا ہے ۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی اس کا انتہائے عروج یہ ہے کہ کبھی خدا کا رسول اور کبھی اس کے کلام کا مظہر بن جاتا ہے ۔

عشق کی مستی سے ہے پیکرِ گل تابناک
عشق ہے صہبائے خام، عشق ہے کاس الکرام

معانی: صہبائے خام: کچی شراب جو زیادہ مزہ دیتی ہے ۔ کاس الکرام: نعمتوں کا پیالہ ۔
مطلب: عشق حقیقی کی توصیف میں اقبال اس سطح تک آ جاتے ہیں کہ ایک پھول یا پھول سے نازک بدن میں جو تازگی ، شگفتگی اور رخشندگی ہے وہ بھی اسی جذبے کا ایک پرتو ہے ۔ اس کے علاوہ عشق حقیقی تو خالص شراب کی مانند ہے جس کی مستی اور نشہ انتہائی تندو تیز ہوتا ہے ۔ مزید یہ کہ عشق اہل کرم کا عطا کردہ ایسا کاسہ ہے جس سے ہر ضرورت مند فیض یاب ہو سکتا ہے ۔

عشق فقیہِ حرم، عشق امیرِ جنود
عشق ہے ابن السبیل، اس کے ہزاروں مقام

معانی: ابن السبیل: مسافر ۔
مطلب: عشق تو حرم کعبہ کا وہ جید اور پاکباز عالم ہے جو انتہائی خلوص اور دیانتداری کے ساتھ ضرورت مندوں کو فقہ اور شریعت کے نکتے سمجھاتا ہے اور میدان حرب میں جہاد کرنے والے عساکر کے لیے سپہ سالاری کے فراءض انجام دیتا ہے ۔ غرض حقیقت یہ ہے کہ حقیقی عشق کے ظہور کی لاتعداد شکلیں ہیں ۔ وہ تو ایسا مسافر ہے جس کے ایسے ہزاروں مقام ہیں جن کا شمارممکنات سے نہیں ۔

عشق کے مضراب سے نغمہَ تارِ حیات
عشق سے نورِ حیات، عشق سے نارِ حیات

معانی: مضراب: ساز بجانے کا آلہ ۔
مطلب: اگر زندگی کو ایک ساز تصور کر لیا جائے تو عشق حقیقی کا جذبہ اس ساز کے لیے ایک مضراب کی حیثیت رکھتا ہے جس کے بغیر ساز کا وجود ایک ناکارہ شے ہے ۔ اسی طرح اگر یہ جذبہ زندگی کو منور کر تا ہے تو اس میں جوش و خروش بھی پیدا کرتا ہے ۔ مراد یہ ہے کہ عشق حقیقی عملاً حیات انسانی کو عملی جدوجہد کے لیے مہمیز کا کام دیتا ہے اور اسی کے سبب زندگی میں جلالی و جمالی شان پیدا ہوتی ہے ۔

اے حرمِ قرطبہ! عشق سے تیرا وجود
عشق سراپا دوام جس میں نہیں رفت و بود

معانی: رفت و بود: ختم ہونے والا ۔
مطلب: اس بند میں اقبال اپنے موضوع کی جانب آتے ہوئے مسجد قرطبہ کو مخاطب کرتے ہیں تا ہم یہ ضرور ہے کہ یہاں بھی انھوں نے سابقہ دونوں بند کے مندرجات اور نقطہ نظر سے بڑی کامیابی سے تسلسل قائم رکھا ہے ۔ فرماتے ہیں کہ اے مسجد قرطبہ! یہ عشق حقیقی کا جذبہ ہی تھا جس کے سبب تیری تعمیر ممکن ہوئی اور عشق تو وہ جذبہ ہے جو ہمیشہ قائم و دائم رہتا ہے ۔ فنا اس کی تقدیر میں نہیں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ صدیوں کے نامساعد حالات اور آفات کے باوجود تیرا وجود ابھی تک برقرار ہے ۔

رنگ ہو یا خشت و سنگ، چنگ ہو یا حرف و صوت
معجزہَ فن کی ہے خون جگر سے نمود

معانی: چنگ: باجا ۔ صوت: آواز ۔
مطلب: اے مسجد قرطبہ! تیرے وجود میں مصوری فن تعمیر اور اسی نوعیت کے فنون اور ہنر جس مہارت اور چابکدستی سے ہم آہنگ ہوئے ہیں وہ اس امر کی غمازی کرتے ہیں کہ جب تک تخلیق کے لیے خون جگر صرف نہ کیا جائے کوئی فن معجزے کی شکل اختیار نہیں کرتا ۔

قطرہَ خون جگر، سِل کو بناتا ہے دل
خونِ جگر سے صدا سوز و سرور و سرود

معانی: سوز: تپش ۔ سرورو سرود: خوشی یا نشہ ۔
مطلب: اور وہ معجزہَ خون جگر صرف کرنے سے ہی نمودار ہوتا ہے کہ حقیقی فنکار پتھر کو بھی تراشے تو اس میں جان ڈال دیتا ہے اور یہی کیفیت اس کے قول و الفاظ میں ہوتی ہے ۔ اس کا اندازہ اے مسجد قرطبہ! تیری تعمیر کو دیکھ کر ہوتا ہے ۔

تیری فضا دل فروز، میری نوا سینہ سوز
تجھ سے دلوں کا حضور، مجھ سے دلوں کی کشود

معانی: دل افروز: دل کو روشن کرنے والی ۔ سینہ سوز: سینہ جلانے والی ۔ حضور: سامنے رہنا، حاضر ہونا ۔ کشود: پھیلنا ۔
مطلب: اے مسجد قرطبہ! تیرا ماحول پرکشش اور دل میں عبادت حق تعالیٰ کی تڑپ پیدا کرنے والا ہے جب کہ میرے اشعار سے سینوں میں حرارت پیدا ہوتی ہے ۔ تیری زیارت دیکھنے والوں کو قربت الہٰی کا احساس دلاتی ہے جب کہ میرا کلام لطافت اور بیداری کا آئینہ دار ہوتا ہے ۔

عرشِ معلّٰی سے کم سینہَ آدم نہیں
گرچہ کفِ خاک کی حد ہے سپہرِ کبود

معانی: سپہرِ کبود: نیلا آسمان ۔
مطلب: ایسے فنکارانہ معجزے دیکھنے کے بعد یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ انسان کا سینہ عرش معلی سے کم نہیں ہے ۔ اس کے باوجود کہ وہ اپنے جسم خاکی کی بدولت آسمان تو کیا خلا کو بھی چھونے کی صلاحیت نہیں رکھتا پھر بھی اسے فرشتوں سے برتر قرار دیا گیا ہے ۔

پیکرِ نوری کو ہے سجدہ میسر تو کیا
اس کو میسر نہیں سوز و گدازِ سجود

معانی: پیکرِ نوری: فرشتے ۔ سوز: گرمی ۔ گدازِ سجود: سجدہ کی لذت ۔
مطلب: بے شک فرشتوں کی تخلیق حق تعالیٰ نے نور سے کی ہے اور انہیں یہ بھی شرف حاصل ہے کہ وہ ہر لمحے معبود حقیقی کی تسبیح و تقدیس میں لگے رہتے ہیں تا ہم انسان کا مرتبہ فرشتوں اور قدسیوں سے اس لیے زیادہ بلند ہے کہ اس کا دل سوز و گداز اور عشق حقیقی کے جذبے سے مالا مال ہوتا ہے ۔

کافرِ ہندی ہوں میں ، دیکھ مرا ذوق و شوق
دل میں صلوٰۃ و درود، لب پہ صلوٰۃ و درود

مطلب: ہر چند کہ مجھے ہند کا رہنے والا کافر تصور کیا جاتا ہے لیکن اے مسجد قرطبہ تو نے میرے ذوق و شوق کا نظارہ یقینا کر لیا ہو گا کہ دل سے بھی صلوٰۃ و درود کی صدائیں بلند ہوتی ہیں اور میرے لبوں پر بھی صلوٰۃ و درود کا نغمہ ہے ۔

شوق مری لَے میں ہے، شوق مری نَے میں ہے
نغمہَ اللہ ہو، میرے رگ و پے میں ہے

معانی: نَے: بانسری وغیرہ ۔
مطلب: یہ جو شوق جو عشق حقیقی سے عبارت ہے اس امر کا گواہ ہے کہ میرا لب و لہجہ بھی اسی جذبے سے لبریز ہے اور میرے نغموں میں بھی اس کا لحن شامل ہے ۔ غرض کہ میرے جسم کا ریشہ ریشہ اللہ ہو کے نعروں سے سرشار ہے ۔

تیرا جلال و جمال، مردِ خدا کی دلیل
وہ بھی جلیل و جمیل، تو بھی جلیل و جمیل

معانی: دلیل: ثبوت ۔ جلیل و جمیل: دبدبے والا، خوبصورت ۔
مطلب: اس بند کے اشعار میں انھوں نے براہ راست مسجد قرطبہ سے مخاطب ہو کر کہا ہے کہ تجھ میں بھی وہی جمال و جلال موجود ہے جو معبود حقیقی کے نزدیک ایک پسندیدہ ، نڈر، بے باک اور سالک شخص میں پایا جاتا ہے ۔ چنانچہ جس طرح وہ شان و شوکت والا اور صاحب حسن و جمال ہوتا ہے تیرے پیکر میں بھی یہی خصوصیات موجود ہیں ۔

تیری بنا پائیدار، تیرے ستوں بے شمار
شام کے صحرا میں ہو جیسے ہجومِ نخیل

معانی: بنا پائدار: مضبوط بنیاد ۔ نخیل: کھجور کا درخت ۔
مطلب: اے مسجد قرطبہ! تیری بنیادیں مستحکم ہیں اور تیرے ستونوں کا بھی کوئی شمار نہیں ۔ یہ ستون اس طرح سے ایستادہ ہیں جیسے کہ صحرائے شام میں کھجوروں کے درخت کھڑے ہوں ۔ صدیاں گزر جانے کے باوجود وہ اسی طرح قائم و دائم ہے ۔ یہ ان ماہرین تعمیرات کا کمال ہے جنھوں نے تیری نادر روزگار عمارت کی تکمیل میں اپنی تمام تر فنی صلاحیتوں اور مہارت سے کام لیا ۔

تیرے در و بام پر وادیِ ایمن کا نور
تیرا منارِ بلند جلوہ گہِ جبرئیل

معانی: وادی ایمن: دامن کوہ جہاں موسیٰ نے اللہ کا جلوہ دیکھا ۔
مطلب: یوں لگتا ہے کہ تیرے دروازوں اور چھتوں پر وادی سینا میں جو نور چمکا تھا یہاں بھی وہ اپنا جلوہ دکھا رہا ہے اور تیرا وہ بلند و بالا مینار جو اذان کے لیے وقف تھا اس پر حضرت جبرئیل سایہ فگن ہیں ۔

مٹ نہیں سکتا کبھی مردِ مسلماں ، کہ ہے
اس کی اذانوں سے فاش سّرِ کلیم و خلیل

معانی: کلیم: موسیٰ علیہ السلام ۔ خلیل: ابراہیم علیہ السلام ۔
مطلب: اقبال اس شعر میں ایک نئے جذبے اور جوش کے ساتھ اعلان کرتے ہیں ۔ ملت اسلامیہ کتنے ہی مراحل سے گزرے اسے کوئی طوفان فنا نہیں کر سکتا اس لیے کہ اس کے جاں نثاروں نے تو اپنی اذانوں کے ذریعے ان رازوں کو بے نقاب کر دیا تھا جن کا تعلق حضرت موسیٰ کلیم اللہ اور حضرت ابراہیم کی خلیل اللہ جیسے جلیل القدر پیغمبروں سے تھا ۔ مراد یہ ہے کہ مسلمانوں نے حضرت موسیٰ اور حضرت ابراہیم کی تعلیمات کو سمجھا اور اسے عالمی سطح پر وسعت دینے میں بے حد نمایاں انجام دیئے ۔

اس کے ز میں بے حدود، اس کا افق بے ثغور
اس کے سمندر کی موج، دجلہ و دنیوب و نیل

معانی: بے حدود : حد کے بغیر ۔ افق بے ثغور: آسمان کا کنارہ، بے حساب وسعت ۔ موج: لہر ۔ دجلہ و دنیوب و نیل: تین دریاؤں کے نام ۔
مطلب: مسلمانوں میں اپنے عہد اقتدار میں اپنی زیر نگیں سلطنت کو جو وسعت دی اس کی حدود کا تعین مشکل ہے ۔ حتیٰ کہ اس کا افق بھی اس نوع کی حد بندیوں سے آزاد ہے اور دجلہ ڈینوب اور نیل جیسے دریا تو اس کے سمندر کی لہریں ہیں ۔ مراد یہ ہے کہ مسلمانوں کے وطن کی کوئی حدود نہیں بلکہ دیکھا جائے تو زمین کا ہر گوشہ ہر خطہ اس کا وطن ہے ۔

اس کے زمانے عجیب، اس کے فسانے غریب
عہدِ کہن کو دیا اس نے پیامِ رحیل

معانی: عہدِ کہن: پرانا زمانہ ۔ پیامِ رحیل: چلنے کا پیغام ۔
مطلب: ماضی میں بھی یہ ملت اسلامیہ کے جیالے ہی تھے جنھوں نے نامساعد حالات کے پیش نظر عہد کو کوچ کرنے کا عملی پیغام دیا ۔ اس عہد کے حوالے سے مسلمانوں کی عظمت و کارکردگی کے فسانے زبان زد خلق ہیں ۔

ساقیِ ارباب ذوق، فارس میدانِ شوق
بادہ ہے اس کا رحیق، تیغ ہے اس کی اصیل

معانی: بادہ: شراب ۔ رحیق: خالص ۔ تیغ: تلوار ۔ اصیل: اصل لوہے کی ۔
مطلب: مسلمانوں نے ہمیشہ اہل ذوق کی رہنمائی کی اور بڑے خلوص و محبت کے ساتھ انہیں منزل آشنا کیا ۔ ان کے قول و فعل میں کسی قسم کے تضاد کی گنجائش نہ تھی بلکہ تلوار کی مانند ان کے لہجے میں بھی کاٹ تھی ۔

مردِ سپاہی ہے وہ، اس کی زرہ لا الہ
سایہَ شمشیر میں اس کی پنہ لا الہ

معانی: زرہ: لوہے کا لباس ۔ پنہ: حفاظت ۔
مطلب: اپنے عزم و عمل کے سبب مسلماں ایسے جاں نثار مرد میدان ہیں جن کا جنگی سازو سامان بھی کلمہ توحید سے عبارت ہے اور جب دشمنوں کے لشکر ان کے مقابل تلوار اٹھاتے ہیں تو یہی کلمہ توحید ان کی سپر بن جاتا ہے ۔ مراد یہ ہے کہ سچا مسلمان خواہ امن ہو یا حالت جنگ وہ کلمہ توحید کو ہی اپنا کل ایمان تصور کرتے ہیں ۔

تجھ سے ہوا آشکار بندہَ مومن کا راز
اس کے دنوں کی تپش، اس کی شبوں کا گداز

مطلب: اے مسجد قرطبہ! تیری نادر روزگار تعمیر اور اس کی ہیَت و عظمت ان خاصانِ خدا کی صلاحیتوں اور جذبہ ایمانی کا اظہار بھی ہوتا جو تیری تعمیر و تکمیل کا سبب بنے ۔ اس منصوبے میں ان کی شب و روز کی محنت شاقہ اور اس لگن کے عمل کا دخل موجود ہے ۔

اس کا مقامِ بلند، اس کا خیالِ عظیم
اس کا سرور اس کا شوق، اس کا نیاز ، اس کا ناز

معانی: نیاز: عاجزی ۔ ناز: فخر ۔
مطلب: تیری عظمت سے انہی صاحب ایمان و یقین کے بلند مراتب کا اندازہ بھی ہوتا ہے اور پتہ چلتا ہے کہ ان کے خیالات کتنے بلند تھے ۔ مزید یہ کہ تیرے وجود سے اس امر کا پتہ بھی چلتا ہے کہ متعلقہ افراد میں ذوق و شوق کی پاکیزگی اور لطافت کا معیار کیا تھا ۔ وہ تیرے وسیع صحن میں سجدہ نیاز کے متمنی بھی تھے اور اس نیازمندی میں نیاز کی شان بھی موجود تھی ۔

ہاتھ ہے اللہ کا، بندہَ مومن کا ہاتھ
غالب و کار آفریں ، کار کشا، کار ساز

معانی: کار آفریں : کام کرنے والا وسیع کرنے والا ۔ کار کشا، کار ساز: بگڑے کام بنانے والا ۔
مطلب: اے مسجد قرطبہ! یہی وہ صاحب ایمان و یقین لوگ تھے جو رضائے خدا کے بغیر اپنی مرضی سے کوئی کام نہ کرتے تھے لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس عمل کے عوض کہ ان کی مرضی بھی رضائے خدا میں ڈھل جاتی ہے ان کا کوئی عمل ذاتی اغراض سے وابستہ نہیں ہوتا یہی وجہ ہے کہ خدائے عزوجل نے ان میں وہ صلاحتیں پیدا کر دی ہیں جن کے سبب وہ اپنے حریفوں پر غالب ہو جاتے ہیں ۔ حاجت مندوں کی مشکلات کو رفع کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی حسن عمل کی راہ دکھاتے ہیں ۔ بے شک ایسے ہی لوگ تھے جن کے ذہنوں میں تیری تعمیر کاجذبہ پیدا ہوا اور انتہائی جدوجہد اور اپنی قوت عمل سے انھوں نے اس جذبے کو عملی جامہ پہنایا ۔

خاکی و نوری نہاد، بندہَ مولا صفات
ہر دو جہاں سے غنی، اس کا دلِ بے نیاز

معانی: نوری نہاد: فرشتوں کی عادتوں والا ۔ بندہَ مولا صفات: اللہ جیسی صفات کا مالک ۔
مطلب: مذکورہ قسم کے لوگوں کی صفات بیان کرتے ہوئے اقبال کہتے ہیں کہ ان کی تخلیق ہر چند کہ مٹی سے ہوئی ہے لیکن ان میں فرشتوں کے اوصاف در آئے ہیں اور ان کے دل نور خدا سے تابندہ رہتے ہیں ۔ ان کے اندر اپنے آقا و مولا کی سی صفات پیدا ہو جاتی ہیں جن کے سبب ان کے دل دونوں جہانوں کی نعمتوں سے بے نیاز ہو جاتے ہیں اور پھر وہ ذات باری تعالیٰ کی خوشنودی کے سوا اور کسی کے بارے میں نہیں سوچتے ۔

اس کی امیدیں قلیل، اس کے مقاصد جلیل
اس کی ادا دل فریب، اس کی نگہ دل نواز

معانی: قلیل: تھوڑی ۔ جلیل: بلند ۔
مطلب: ایسے صاحب ایمان لوگوں کے دلوں میں دنیاوی خواہشات کے لیے کم سے کم گنجائش ہوتی ہے جب کہ ان کے مقاصد بہت بلند ہوتے ہیں ۔ وہ اپنی ذات کے بجائے دوسروں کی بہتری کے لیے عملی اقدام کرتے ہیں ۔ دوسروں کے ساتھ ان کا رویہ ہمیشہ انتہائی محبت والا اور نرم ہوتا ہے ۔ بالکل اسی طرح جیسے ہرن کی خوبصورت اور روایتی طور پر دلفریب آنکھوں میں ایک دل نواز چمک ہوتی ہے اسی طرح ان کی نگاہوں میں بھی یہی کیفیت محسوس کی جا سکتی ہے ۔

نرم دمِ گفتگو، گرم دمِ جستجو
رزم ہو یا بزم ہو، پاک دل و پاکباز

معانی: نرم دم گفتگو: باتیں کرتے وقت نرم لہجہ ۔ گرم دم جستجو: تلاش و جستجو میں سرگرم ۔
مطلب: یہ صاحب ایمان و یقین جب کسی سے مکالمہ کرتے ہیں تو ان کا لہجہ انتہائی نرم اور شفقت و محبت کا مظہر ہوتا ہے جب کہ تلاش حق میں انتہائی طور پر سرگرمی کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔ یہی نہیں کوئی میدان جنگ ہو یا نجی محفل ہر دو مقامات پر وہ پاک دلی اور پاک طینتی سے کام لیتے ہیں ۔

نقطہ پرکارِ حق، مردِ خدا کا یقیں
اور یہ عالم تمام وہم و طلسم و مجاز

معانی: نقطہَ پرکار حق: خدا کی پرکار کا مرکز ۔ وہم: شک ۔ طلسم: جادو ۔ مجاز: بے حقیقت ۔
مطلب: اقبال کے نزدیک اہل ایمان کے نزدیک خدائے برتر کا وجود ہی مرکزی حیثیت کا حامل ہوتا ہے یعنی ذات باری کا عرفان ہی سب کچھ ہے اس کے برعکس یہ جو عالم رنگ و بو ہے وہ وہم، سحر اور ناپائیداری کا مظہر ہے ۔ مراد یہ ہے کہ صاحب ایمان لوگوں کا خدا کی ذات پر یقین ہی پائیداری کی علامت ہے ۔

عقل کی منزل ہے وہ، عشق کا حاصل ہے وہ
حلقہَ آفاق میں گرمیِ محفل ہے وہ

معانی: حلقہَ آفاق: آسمان کے حلقے میں ۔ گرمیِ محفل: محفل کی رونق ۔
مطلب: اس ضمن میں آخری بات تو یہ ہے کہ یہی صاحب ایمان لوگ فی الواقع عقل سلیم کا سرچشمہ ہیں اور عشق حقیقی کا حامل بھی انہی کا جذبہ ہے ۔ چنانچہ کائنات میں جو رونق اور چہل پہل نظر آتی ہے فی الواقع انہی کے دم سے ہے ۔

کعبہَ اربابِ فن! سطوتِ دینِ مبین
تجھ سے حرم مرتبت اندلسیوں کی ز میں

معانی: کعبہَ اربابِ فن: اہل فن کا مرکز ۔ سطوتِ دینِ مبین: دین اسلام کی شوکت ۔ حرم مرتبت: حرم کا مقام، حرم کا مربتہ رکھنے والا ۔ اندلسیوں کی ز میں : اندلس والوں کی ز میں ۔
مطلب: اے مسجد قرطبہ! تیری سطوت و شان کے پیش نظر یہ کہنا مبالغہ آمیز نہ ہو گا کہ ماہرین فن کے نزدیک تیری حیثیت حرم کعبہ سے کم نہیں ۔ تو ہی ہے جس سے ملت اسلامیہ کی شان و شوکت میں اضافہ ہوا ہے ۔ یہی نہیں بلکہ اندلس کی سرزمین کو بھی تیرے سبب دوسروں کے لیے انتہائی عزت و احترام کی حقدار بن گئی ۔

ہے تہِ گردوں اگر حسن میں تیری نظیر
قلبِ مسلماں میں ہے اور نہیں ہے کہیں

معانی: نظیر: مثال ۔ تہِ گردوں : دنیا میں ۔
مطلب: اس آسمان کے تلے، ز میں پر تیری خوبصورت اور باکمال تعمیر کی دوسری مثال تلاش کی جائے تو اس کا ملنا خارج از امکانات ہے ۔ ہاں اگر کہیں اس کا وجود ممکن ہے تو وہ تیرے معمار مسلمانوں کے دلوں میں ہی ہو سکتا ہے کہ یہی لوگ تیری عظمت و احترام کا ادراک رکھتے ہیں ۔

آہ وہ مردانِ حق! وہ عربی شہسوار
حاملِ خلق عظیم، صاحبِ صدق و یقین

معانی: صدق و یقیں : اعلیٰ اخلاق والے اور صدق و یقین رکھنے والے ۔
مطلب: فرماتے ہیں کہ وہ عربی شہسوار اور مردانِ حق جو اپنے جملہ کارناموں کی بدولت ہسپانیہ میں اپنے عہد کو مثالی بنا گئے ۔ انتہائی خلیق ہونے کے ساتھ پاکیزگی اور سچائی پر یقین رکھتے تھے ۔ اور اپنی راستبازی کے طفیل اعلیٰ مراتب حاصل کر سکے ۔

جن کی حکومت سے ہے فاش یہ رمزِ غریب
سلطنتِ اہلِ دل فقر ہے، شاہی نہیں

معانی: فاش: کھلنا ۔ رمزِ غریب: عجیب راز ۔ سلطنت: بادشاہت ۔
مطلب: یہی وہ مردان حق تھے جن کی حکومت کے ادوار میں یہ راز کھلا کہ اہل دل کی سلطنت تو فی الواقع بادشاہی نہیں بلکہ فقر اور درویشی ہے ۔ یہی پیغام حضور سرور دو عالم نے دنیا کو دیا تھا ۔

جن کی نگاہوں نے کی تربیتِ شرق و غرب
ظلمتِ یورپ میں تھی جن کی خرد راہ بیں

معانی: خرد: عقل ۔ راہ بیں : راستہ دیکھنے والی ۔
مطلب: یہی لوگ تھے جنھوں نے اپنے بلند کردار اور سیرت کے پس منظر میں مشرق و مغرب میں مقیم باشندوں کی تربیت کی یہی نہیں بلکہ اپنی دانش سے انھوں نے یورپ کو جہل و تعصب کی تاریکیوں سے نجات دلائی اور ہر طرح ان کی رہنمائی کی ۔

جن کے لہو کی طفیل آج بھی ہیں اُندلسی
خون دل و گرم اختلاط، سادہ و روشن جبیں

معانی: گرم اختلاط: جوش سے ملنے والے ۔
مطلب: اندلس میں عربی خون کی آمیزش سے آج بھی حسن و جمال عام ہے اور آج بھی محبت کے راگ الاپے جاتے ہیں ۔

آج بھی اس دیس میں عام ہے چشمِ غزال
اور نگاہوں کے تیر آج بھی ہیں دل نشیں

معانی: چشمِ غزال: ہرن کی آنکھ، خوبصورتی کا مظہر ۔
مطلب: یہی وہ لوگ تھے جنھوں نے اندلس کو اپنے علم و اخلاق سے آراستہ کیا اور آج بھی وہاں کے لوگ یہ سبق نہیں بھولے ۔

بوئے یمن آج بھی اس کی ہواؤں میں ہے
رنگِ حجاز آج بھی اس کی نواؤں میں ہے

مطلب: جو عرب ابتداء میں اندلس میں آ کر آباد ہوئے ان میں سے اکثریت کا تعلق یمن سے تھا چنانچہ یمن کی تہذیب و ثقافت اور معاشرت کے اثرات نے اندلس کے مقامی باشندوں کو پوری طرح متاثر کیا ۔

دیدہَ انجم میں ہے تیری ز میں آسماں
آہ کہ صدیوں سے ہے تیری فضا بے اذاں

معانی: دیدہَ انجم: ستاروں کی نظر ۔ مطلب: ہر چند کہ اے مسجد قرطبہ ستارے بھی تیری سرزمین کو آسمان سے کم تر نہیں سمجھتے یعنی تیرا رتبہ بے شک بہت بلند ہے اس کے باوجود اس سے بڑا المیہ یہاں اور کیا ہو سکتا ہے کہ صدیوں سے کسی نے تیرے بلند و بالا مینا ر سے اذان کی آواز نہیں سنی ۔

کون سی وادی میں ہے، کون سی منزل میں ہے
عشقِ بلا خیز کا قافلہَ سخت جاں

معانی: عشقِ بلا خیز کا قافلہ: پرجوش محبت کا قافلہ ۔
مطلب: اب تو مردان حق پرست اور جاں نثاروں کے اس قافلے کا انتظار ہے کہ یہاں پہنچ کر اے مسجد! تیرے وسیع صحن میں سجدہ ریز ہونے سے قبل اللہ اکبر کا آوازہ بلند کر ے ۔

دیکھ چکا المنی، شورشِ اصلاحِ دیں
جس نے نہ چھوڑے کہیں نقشِ کہن کے نشاں

معانی: المنی: جرمن ۔ شورشِ اصلاح دیں : اصلاحِ مذہب کی تحریک ۔
مطلب: پچھلی چند صدیوں میں مختلف یورپی ممالک میں مذہب اور معاشرے کے حوالے سے کئی تحریکیں اٹھیں ۔ اقبال نے اس بند کے اس شعر اور باقی اشعار میں ان تحریکوں کے حوالے سے اپنی فکر کا اظہار کیا ہے ۔ اس شعر میں انھوں نے جرمنی میں مارٹن لوتھر کی مشہور تحریک اصلاح دین کا ذکر کیا ہے جس کے باعث عیسائیت دو دھڑوں کیتھولک اور پروٹسٹنٹ میں بٹ گئی ۔ کیتھولک پوپ کے ماننے والے تھے جب کہ پروٹسٹنٹ مارٹن لوتھر کے پیرو قرار دیئے گئے ۔ لوتھر نے یہ دعویٰ کیا کہ نہ پوپ معصوم ہے نا ہی وہ کسی کے گناہ بخشنے کی صلاحیت کا حامل ہے ۔ اصلاح دین کی تحریک نے یورپ میں عیسائیت کی بنیادیں ہلا کر رکھ دیں ۔

حرفِ غلط بن گئی عصمتِ پیر کنشت
اور ہوئی فکر کی کشتیِ نازک رواں

معانی: کنشت: گرجا ۔
مطلب: پوپ کی جس معصومیت کا ایک عرصے سے ڈھنڈورا پیٹا جا رہا تھا وہ حرف غلط ثابت ہو کر رہ گئی ۔ مارٹن لوتھر کی تحریک اصلاح دین نے اسے کافی نقصان پہنچایا اور عیسائیت کا بنیادی تصور بھی متزلزل ہو کر رہ گیا ۔ آزادی فکر کا ردعمل بھی یورپ کو کوئی مثبت تہذیبی ڈھانچہ فراہم نہ کر سکا ۔

چشمِ فرانسیس بھی دیکھ چکی انقلاب
جس سے دگرگوں ہوا مغربیوں کا جہاں

معانی: چشمِ فرانسیس: فرانس میں انقلاب آیا اور بادشاہت کی جگہ جمہوریت کی طرف آئے ۔
مطلب: اس کے ساتھ ہی فرانس میں جو انقلاب آیا اس نے تو مغربی تہذیب اور مغربی معاشرے کے ضمن میں رہی سہی کسر بھی پوری کر دی ۔ اس انقلاب کے اثرات بھی عیسائیت کے خلاف مرتب ہوئے ۔

ملتِ رومی نژاد کہنہ پرستی سے پیر
لذتِ تجدید سے وہ بھی ہوئی پھر جواں

معانی: رومی: رومن (اٹلی) والے بھی پرانی شاہی سے جمہوریت کی طرف آئے ۔
مطلب: لیکن اتنا ضرور ہوا کہ اطالوی تہذیب اور معاشرہ جو رجعیت پسندی اور قدامت کے آخری مرحلے پر تھے وہ ان تبدیلیوں سے ضرور متاثر ہوئے اور ان کو نئی جہتوں سے آشنا کیا ۔

روحِ مسلماں میں ہے آج وہی اضطراب
رازِ خدائی ہے یہ، کہہ نہیں سکتی زباں

مطلب: اور تو اور مسلم معاشرے میں بھی تبدیلی اور ارتقاء کی خواہشوں نے بڑی تیزی کے ساتھ جنم لینا شروع کر دیا ہے ۔

دیکھیے اس بحر کی تہہ سے اُچھلتا ہے کیا
گُنبدِ نیلوفری رنگ بدلتا ہے کیا

معانی: گبندِ نیلوفری: نیلا آسمان ۔
مطلب: اور یہاں ایک اضطراب کی لہریں دوڑ رہی ہیں اور طوفان کے آثار ہویدا ہیں دیکھنا یہ ہے کہ اس صورت حال میں اس سمندر کی تہہ سے اچھل کر کیا نکلتا ہے ۔

وادیِ کہسار میں غرقِ شفق ہے سحاب
لعلِ بدخشاں کے ڈھیر چھوڑ گیا آفتاب

معانی: وادیَ کہسار: پہاڑی وادی ۔
مطلب: اس اولین شعر میں اقبال نے وادی کہسار میں غروب آفتاب کا نظارہ پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس لمحے تو بادل بھی شفق کے رنگ میں غرق ہو چکے ہیں ۔ یوں لگتا ہے ڈوبتا سورج اس مقام پر غروب ہوتے ہوئے لعل بدخشاں کے ڈھیر چھوڑ گیا ہے ۔ مراد یہ ہے کہ وادی کوہ میں موجود سنگریزوں پر شفق کی سرخی جس طرح پڑ رہی ہے اس کے سبب یہ سنگریزے لعل بدخشاں دکھائی دیتے ہیں ۔

سادہ و پرسوز ہے دخترِ دہقاں کا گیت
کشتیِ دل کے لیے سیل ہے عہدِ شباب

معانی: سادہ و پرسوز: دل کو سوز دینے والا ۔ دختر دہقاں کا گیت: کسان کی بیٹی کا گیت ۔ سیل ہے عہدِ شباب: جوانی کا دور ایک طوفان ہے ۔
مطلب: اس منظر نامے میں کسان کی ایک بیٹی سادہ لیکن پر سوز لے میں اس طرح گیت گا رہی ہے کہ جس سے یہ اندازہ لگانا زیادہ مشکل نہیں کہ ایک دوشیزہ کے دل کو اگر کشتی سے تعبیر کیا جائے تو شباب کا زمانہ ایک طوفان کے مانند ہو گا ۔

آبِ روانِ کبیر تیرے کنارے کوئی
دیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کا خواب

مطلب: اس شعر میں اقبال کہتے ہیں کہ میں اندلس کے مشہور دریا دارلکبیر کے کنارے پر بیٹھا کسی اور زمانے کے بارے میں خواب دیکھ رہا ہوں ۔

عالمِ نو ہے ابھی پردہ تقدیر میں
میری نگاہوں میں ہے اس کی سحر بے حجاب

معانی: بے حجاب: ظاہر ۔
مطلب: ہر چند کی آنے والا نیا دور ابھی تک پردہ تقدیر میں پوشیدہ ہے اقبال کہتے ہیں کہ اس کے باوجود میں اس کی حقیقتوں سے پوری طرح آگاہ ہوں ۔

پردہ اُٹھا دوں اگر چہرہَ افکار سے
لا نہ سکے گا فرنگ میری نواؤں کی تاب

معانی: تاب: برداشت کرنے کی قوت ۔ فرنگ: مغربی دنیا ۔
مطلب: اس شعر میں اقبال اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ یورپ نے جو افکار اپنائے ہیں اگر ان کی حقیقت بیان کر دوں تو یورپ کے دانشور شاید اس کو برداشت نہیں کر سکیں گے کہ سچ ہمیشہ تلخ ہوتا ہے ۔

جس میں نہ ہو انقلاب، موت ہے وہ زندگی
رُوحِ اُمم کی حیات کشمکشِ انقلاب

معانی: روحِ امم: قوموں کی روح ۔ کشمکش انقلاب: تبدیلیوں کی کشمکش ۔
مطلب: اس شعر میں علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ وہ زندگی موت سے بھی بدتر ہے جس میں انقلاب اور تغیر و تبدل کی صلاحیت نہ ہو ۔ یہی نہیں بلکہ وہ انقلابی جدوجہد کو بین الاقوامی سطح پر زندگی سے تعبیر کرتے ہیں ۔ مراد یہ ہے کہ جس طرح ایک مقام پر ٹھہرا ہوا پانی کچھ عرصے بعد سڑانڈ دینے والا لگتا ہے یہی حال ایک قوم کا ہے کہ اگر اس میں عملی جدوجہد کا جذبہ موجود نہ ہو تو وہ عروج سے ہم کنار نہیں ہو سکتی اس مقصد کے لیے تو زندگی میں انقلابی عمل درکار ہوتا ہے ۔

صورتِ شمشیر ہے دستِ قضا میں وہ قوم
کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب

مطلب: وہ قوم جو اپنی جدوجہد اور عمل کے دائرہ کار میں خود احتسابی کو روا رکھتی ہے تو اسے اپنی خامیوں اور خوبیوں کا اندازہ ہوتا رہتا ہے ۔ وہ اپنی خامیوں کو دور کر لیتی ہے اور خوبیوں میں اضافے کے بارے میں سوچتی ہے ۔ اس کی حیثیت تو ایک تلوار کی مانند ہے جس سے قدرت کام لینے کی خواہاں ہو ۔

نقش ہیں سب ناتمام، خونِ جگر کے بغیر
نغمہ ہے سودائے خام، خونِ جگر کے بغیر

معانی: سودائے خام: نامکمل جذبہَ عشق ۔
مطلب: اور اس ضمن میں حرف آخر یہ ہے کہ عملی جدوجہد اور خون جگر صرف کئے بغیر تمام نقوش اور کام نامکمل رہتے ہیں حتیٰ کہ شاعری کی تخلیق بھی خون جگر کی شمولیت کے بغیر نیم دیوانگی کے سوا اور کچھ نہیں ۔ مراد یہ کہ ہر عمل کے لیے خون جگر بنیادی شرط ہے ۔

————————-

Transliteration

Masjid-e-Qurtuba

(Haspania Ki Sarzameen, Bil-Khasoos Qurtaba Mein Likhi Gyi)

Silsalah-E-Roz-O-Shab, Naqsh Gar-E-Hadsaat
Silsalah-E-Roz-O-Shab, Asal-E-Hayat-O-Mamaat

Silsalah-E-Roz-O-Shab, Taar-E-Hareer-E-Do Rang
Jis Se Banati Hai Zaat Apni Qaba’ay Sifat

Silsalah-E-Roz-O-Shab, Saaz-E-Azal Ki Faghan
Jis Se Dikhati Hai Zaat Zair-O-Bam-E-Mumkinaat

Tujh Ko Parakhta Hai Ye, Mujh Ko Parakhta Hai Ye
Silsalah-E-Roz-O-Shab, Sayr Fee Kainat

Tu Ho Agar Kam Ayaar, Main Hun Agar Kam Ayaar
Mout Hai Teri Baraat, Mout Hai Meri Baraat

Tere Shab-O-Roz Ki Aur Haqiqat Hai Kya
Aik Zamane Ki Ro Jis Mein Na Din Hai Na Raat

Aani –O-Fani Tamam Mojazaat  Haye Gunar
Kaar-E-Jahan Be-Sabaat, Kaar-E-Jahan Be-Sabaat!

Awwal-O-Akhir Fana, Batin-O-Zahir Fana
Naqsh-E-Kuhan Ho Ke Nau, Manzil-E-Akhir Fana

Hai Magar Iss Naqsh Mein Rang-E-Sabaat-E-Dawam
Jis Ko Kiya Ho Kisi Mard-E-Khuda Ne Tamam

Mard-E-Khuda Ka Amal Ishq Se Sahib Firogh
Ishq Hai Asal-E-Hayat, Mout Hai Iss Par Haraam

Tund-O-Subak Sair Hai Gharcha Zamane Ki Ro
Ishq Khud Ek Sayl Hai, Sayl Ko Leta Hai Thaam

Ishq Ki Taqweem Mein Asar-E-Rawan Ke Sawa
Aur Zamane Bhi Hain Jin Ka Nahin Koi Naam

Ishq Dam-E-Jibreel, Ishq Dam-E-Mustafa (S.A.W.).
Ishq Khuda Ka Rasool, Ishq Khuda Ka Kalaam

Ishq Ki Masti Se Hai Paikar-E-Gil Taabnaak
Ishq Hai  Sehba’ay Khaam, Ishq Hai Kaas-Ul-Kiraam

Ishq Faqeeh-E-Haram, Ishq Ameer Junood
Ishq Hai Ibn-Ul-Sabeel, Iss Ke Hazaron Maqam

Ishq Ke Mizraab Se Naghma’ay Taar-E-Hayat
Ishq Se Noor-E-Hayat, Ishq Se Naar-E-Hayat

Ae Haram-E-Qurtuba! Ishq Se Tera Wujood
Ishq Sarapa Dawam, Jis Mein Nahin Raft-o-Bood

Rang Ho Ya Khisht-o-Sang, Chang Ho Ya Harf-o-Soot
Moajaza-E-Fan Ki Hai Khoon-E-Jigar Se Namood

Katra-E-Khoon-E-Jigar Sil Ko Banata Hai Dil
Khoon-E-Jigar Se Sada Souz-o-Suroor-o-Surood

Teri Fiza Dil Faroz , Meri Nawa Sina Soz
Tujh Se Dilon Ka Huzoor, Mujh Se Dilon Ki Kushood

Arsh-E-Muala Se Kam Sina’ay Adam Nahin
Garche Kaf-Ekhak Ki Had Hai Sipihr-E-Kubood

Pekar-E-Noori Ko Hai Sajda Meyasir To Kya
Iss Ko Meyasir Nahin Soz-O-Gudaaz-E-Sujood

Kafir-E-Hindi Hun Main, Dekh Mera Zauq-O-Shauq
Dil Mein Salat-O-Durood, Lab Pe Salat-O-Durood

Shauq Meri Le Main Hai, Shauq Meri Ne Mein Hai
Naghma’ay ‘ALLAH HOO’ Mere Rag-E-Pe Mein Hai

Tera Jalal-O-Jamal, Mard-E-Khuda Ki Daleel
Woh Bhi Jaleel-O-Jameel, Tu Bhi Jaleel-O-Jameel

Teri Bina Paidar, Tere Sutoon Be-Shumar
Sham Ke Sehra Mein Ho Jaise Hujoom-E-Nakheel

Tere Dar-O-Baam Par Wadi-E-Ayman Ka Noor
Tera Minaar-E-Buland Jalwagah-E-Jibreel

Mit Nahin Sakta Kabhi Mard-E-Musalman Ke Hai
Iss Ki Azanon Se Fash Sir-E-Kaleem(A.S.)-O-Khalil(A.S.)

Iss Ki Zameen Behadood, Is Ka Ufaq Be Sooghoor
Iss Ke Samundar Ki Mouj, Dajla-O-Danyob-O-Neel

Iss Ke Zamane Ajeeb, Iss Ke Fasane Ghareeb
Ehad-E-Kuhan Ko Diya Iss Ne Payam-E-Raheel

Saqi Arbab-E-Zauq, Faris-E-Maidan-E-Shauq
Badah Hai Iss Ka Raheeq, Taeg Hai Iss Ki Aseel

Mard-E-Sipahi Hai Woh, Iski Zirah ‘LA ILAHA’
Saya-E-Shamsheer Mein Is Ski Panah ‘LA ILAHA’

Tujh Se Huwa Ashkara Banda-E-Momin Ka Raaz
Iss Ke Dino Ki Tapish, Is Ke Shabon Ka Gudaaz

Iss Ka Maqam Buland, Iss Ka Khayal Azeem
Iss Ka Suroor Iss Ka Shauq, Iss Ka Niaz Iss Ka Naaz

Hath Hai ALLAH Ka Banda-E-Momin Ka Hath
Ghalib-O-Kaar Afreen, Kaar Kusha, Kaar Saaz

Khaki-O-Noori Nihad, Banda-E-Mola Sifat
Har Do Jahan Se Ghani Iss Ka Dil-E-Beniaz

Uss Ki Umeedain Qaleel, Uss Ke Maqasid Jaleel
Uss Ki Ada Dil Faraib, Iss Ki Nigah Dil Nawaz

Naram Dam-E-Guftugoo, Garam Dam-E-Justujoo
Razm Ho Ya Bazm Ho, Pak Dil-O-Pak Baz

Nukta’ay Parkar-E-Haq, Mard-E-Khuda Ka Yaqeen
Aur Ye Alam Tamam Weham-O-Tilism-O-Majaz

Aqal Ki Manzil Hai Woh, Ishq Ka Hasil Hai Woh
Halqa’ay Afaq Mein Garmi-E-Mehfil Hai Woh

Kaaba Arbab-E-Fan! Sitwat-E-Deen-E-Mubeen
Tujh Se Haram Martabat Andlusiyon Ki Zameen

Hai Teh-E-Gardoon Agar Husn Mein Teri Nazeer
Qalb-E-Musalman Mein Hai, Aur Nahin Hai Kahin

Aah Woh Mardan-E-Haq! Woh Arabi Shehsawar
Hamil-E-Khulq-E-Azeem, Sahib-E-Sidq-O-Yaqeen

Jin Ki Hukumat Se Hai Fash Ye Ramz-E-Ghareeb
Saltanat Ahl-E-Dil Faqar Hai, Shahi Nahin

Jin Ki Nigahon Ne Ki Tarbiat-E-Sharq-O-Gharb
Zulmat-E-Yorap Mein Thi Jin Khird Rah Been

Jin Ke Lahoo Ki Tafail Aaj Bhi Hain Andlasi
Khush Dil-O-Garam Ikhtalaat, Sada-O-Roshan Jabeen

Aaj Bhi Iss Dais Mein Aam Hai Chasm-E-Ghazaal
Aur Nigahon Ke Teer Aaj Bhi Hain Dil Nasheen

Boo’ay Yaman Aaj Bhi Is Ski Hawaon Mein Hai
Rang-E-Hijaz Aaj Bhi Iss Ki Nawaon Mein Hai

Didah-E-Anjum Mein Hai Teri Zameen, Asman
Aah Ke Sadiyon Se Hai Teri Faza Be-Azan

Kon Se Wadi Mein Hai, Kon Si Manzil Mein Hai
Ishq-E-Bala Khaiz Ka Kafla’ay Sakht Jaan!

Dekh Chuka Almani, Shorish-E-Islah-E-Deen
Jis Ne Na Chore Kahin Naqsh-E-Kuhan Ke Nishan

Harf-E-Galat Ban Gyi Ismat-E-Peer-E-Kunisht
Aur Huwi  Fikar Ki Kashti-E-Nazuk Rawan

Chashme-E-Francis Bhi Dekh Chuki Inqilab
Jis Se Digargoon Huwa Magribiyon Ka Jahan

Millat-E-Roomi Nazad Kuhna Prasti Se Peer
Lazzat-E-Tajdeed Se Woh Bhi Huwi Phir Jawan

Rooh-E-Musalman Mein Hai Aaj Wohi Iztarab
Raaz-E-Khudai Hai Ye, Keh Nahin Sakti Zuban

Dekhiye Iss Behar Ki Teh Se Uchalta Hai Kya
Gunbad-E-Nilofari Rang Badalta Hai Kya!

Wadi-E-Kuhsaar Mein Garaq-E-Shafaq Hai Sahab
La’al-E-Badkhashan Ke Dhair Chor Gya Aftab

Sada-O-Pursoz Hai Dukhtar-E-Dehqan Ka Geet
Kashti-E-Dil Ke Liye Sayl Hai Ehad-E-Shaba

Aab-E-Rawan-E-Kabeer ! Tere Kinare Koi
Dekh Raha Hai Kisi Aur Zamane Ka Khawab

Alam-E-Nau Hai Abhi Parda’ay Taqdeer Mein
Meri Nigahon Mein Hai Iss Ki Sehar Behijab

Parda Utha Doon Agar Chehra’ay Afkar Se
La Na Sake Ga Farang Meri Nawa’on Ki Taab

Jis Mein Na Ho Inqilab, Mout Hai Woh Zindagi
Rooh-E-Ummam Ki Hayat Kashmakash-E-Inqilab

Soorat-E-Shamsheer Hai Dast-E-Qaza Mein Woh Qaum
Karti Hai Jo Har Zaman Apne Amal Ka Hisaab

Naqsh Hain Sub Na-Tamam Khoon-E-Jigar Ke Begair
Naghma Hai Soda’ay Kham Khoon-E-Jigar Ke Begair

Wada-Al-Kabeer, Qurtuba Ka Mashoor Darya Jis Ke Qareeb Hi Masjid-E-Qurtaba Waqiya Hai

————————–

THE MOSQUE OF CORDOBA
(Written in Spain, especially Cordoba)

The succession of day and night, is the architect of events.
The succession of day and night,  is the fountain‐head of life and death.

The succession of day and night,  is a two‐tone silken twine,
With which the Divine Essence, prepares Its apparel of Attributes.

The succession of day and night, is the reverberation of the symphony of Creation.
Through its modulations, the Infinite demonstrates the parameters of possibilities.

Now sitting in judgement on you, Now setting a value on me.
The succession of day and night is the touchstone of the universe;

But what if you are found wanting, What if I am found wanting.
Death is your ultimate destiny, Death is my ultimate destiny.

What else is the reality of your days and nights,
Besides a surge in the river of time, sans day, sans night.

Frail and evanescent, all miracles of ingenuity,
Transient, all temporal attainments; Ephemeral, all worldly accomplishments.

Annihilation is the end of all beginnings; Annihilation is the end of all ends.
Extinction, the fate of everything; Hidden or manifest, old or new.

Yet in this very scenario indelible is the stamp of permanence
On the deeds of the good and godly.

Deeds of the godly radiate with Love,
The essence of life, which death is forbidden to touch.

Fast and free flows the tide of time,
But Love itself is a tide that stems all tides.

In the chronicle of Love there are times other than the past, the present and the future;
Times for which no names have yet been coined.

Love is the breath of Gabriel. Love is the heart of Holy Prophet (PBUH).
Love is the messenger of God. Love is the Word of God.

Love is ecstasy lends luster to earthly forms.
Love is the heady wine, Love is the grand goblet.

Love is the commander of marching troops,
Love is a wayfarer with many a way‐side abode.

Love is the plectrum that brings Music to the string of life.
Love is the light of life, Love is the fire of life.

To Love, you owe your being, O, Harem of Cordoba,
To Love, that is eternal; Never waning, never fading.

Just the media these pigments, bricks and stones; This harp, these words and sounds, just the media.
The miracle of art springs from the lifeblood of the artist!

A droplet of the lifeblood transforms a piece of dead rock into a living heart;
An impressive sound, into a song of solicitude, A refrain of rapture or a melody of mirth.

The aura you exude, illumines the heart. My plaint kindles the soul.
You draw the hearts to the Presence Divine, I inspire them to bloom and blossom.

No less exalted than the Exalted Throne, Is the throne of the heart, the human breast!
Despite the limit of azure skies, Ordained for this handful of dust.

Celestial beings, born of light, Do have the privilege of supplication,
But unknown to them are the verve and warmth of prostration.

An Indian infidel, perchance, am I; But look at my fervour, my ardour.
‘Blessings and peace upon the Prophet,’ sings my heart.
‘Blessings and peace upon the Prophet,’ echo my lips.

My song is the song of aspiration. My lute is the serenade of longing.
Every fibre of my being Resonates with the refrains of Allah hoo!

Your beauty, your majesty, Personify the graces of the man of faith.
You are beautiful and majestic. He too is beautiful and majestic.

Your foundations are lasting, Your columns countless,
Like the profusion of palms In the plains of Syria.

Your arches, your terraces, shimmer with the light that once flashed in the valley of Aiman
Your soaring minaret, all aglow In the resplendence of Gabriel’s glory.

The Muslim is destined to last as
his Azan holds the key to the mysteries of the perennial message of Abraham and Moses.

His world knows no boundaries, His horizon, no frontiers.
Tigris, Danube and Nile: Billows of his oceanic expanse.

Fabulous, have been his times! Fascinating, the accounts of his achievements!
He it was, who bade the final adieu To the outworn order.

A cup‐bearer is he, With the purest wine for the connoisseur;
A cavalier in the path of Love with a sword of the finest steel.

A combatant, with ‘La Ilah’ as his coat of mail.
Under the shadow of flashing scimitars, ‘La Ilah’ is his protection.

Your edifice unravels The mystery of the faithful;
The fire of his fervent days, The bliss of his tender nights.

Your grandeur calls to mind The loftiness of his station,
The sweep of his vision, His rapture, his ardour, his pride, his humility.

The might of the man of faith is the might of the Almighty:
Dominant, creative, resourceful, consummate.

He is terrestrial with celestial aspect; A being with the qualities of the Creator.
His contented self has no demands on this world or the other.

His desires are modest; his aims exalted;
His manner charming; his ways winsome.

Soft in social exposure, Tough in the line of pursuit.
But whether in fray or in social gathering,  Ever chaste at heart, ever clean in conduct.

In the celestial order of the macrocosm, His immutable faith is the centre of the Divine Compass.
All else: illusion, sorcery, fallacy.

He is the journey’s end for reason, He is the raison d ’etre of Love.
An inspiration in the cosmic communion.

O, Mecca of art lovers, You are the majesty of the true tenet.
You have elevated Andalusia To the eminence of the holy Harem.

Your equal in beauty, If any under the skies,
Is the heart of the Muslim and no one else.

Ah, those men of truth, Those proud cavaliers of Arabia;
Endowed with a sublime character, Imbued with candour and conviction.

Their reign gave the world an unfamiliar concept;
That the authority of the brave and spirited lay in modesty and simplicity, rather than pomp and regality.

Their sagacity guided the East and the West.
In the dark ages of Europe, It was the light of their vision that lit up the tracks.

A tribute to their blood it is, That the Andalusians, even today,
Are effable and warm‐hearted, Ingenuous and bright of countenance.

Even today in this land, Eyes like those of gazelles are a common sight.
And darts shooting out of those eyes, Even today, are on target.

Its breeze, even today, Is laden with the fragrance of Yemen.
Its music, even today, Carries strains of melodies from Hijaz.

Stars look upon your precincts as a piece of heaven.
But for centuries, alas! Your porticoes have not resonated With the call of the muezzin.

What distant valley, what way‐side abode is holding back
That valiant caravan of rampant Love.

Germany witnessed the upheaval of religious reforms
That left no trace of the old perspective.

Infallibility of the church sage began to ring false.
Reason, once more, unfurled its sails.

France too went through its revolution
That changed the entire orientation of Western life.

Followers of Rome, feeling antiquated worshipping the ancientry,
Also rejuvenated themselves with the relish of novelty.

The same storm is raging today In the soul of the Muslim.
A Divine secret it is, Not for the lips to utter.

Let us see what surfaces from the depths of the deep.
Let us see what color, The blue sky changes into.

Clouds in the yonder valley are drenched in roseate twilight.
The parting sun has left behind mounds and mounds of rubies, the best from Badakhshan.

Simple and doleful is the song of the peasant’s daughter:
Tender feelings adrift in the tide of youth.

O, the ever‐flowing waters of Guadalquivir (1,  see reference at end),
Someone on your banks is seeing a vision of some other period of time.

Tomorrow is still in the curtain of intention,
But its dawn is flashing before my mind’s eye.

Were I to lift the veil from the profile of my reflections,
The West would be dazzled by its brilliance.

Life without change is death.
The tumult and turmoil of revolution, Keep the soul of a nation alive.

Keen, as a sword in the hands of Destiny
Is the nation that evaluates its actions at each step.

Incomplete are all creations without the lifeblood of the creator.
Soulless is the melody without the lifeblood of the maestro.

(1) Guadalquivir—“The well‐known river of Cordoba, near which the Mosque is located.”

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button