با ل جبر یل - رباعيات

قطعہ اقبال نے کل اہل خياباں کو سنايا

اقبال نے کل اہلِ خیاباں کو سنایا
یہ شعر نشاط آور و پُر سوز و طرب ناک

میں صورتِ گُل دستِ صبا کا نہیں محتاج
کرتا ہے مرا جوشِ جنوں میری قبا چاک

معانی: خیاباں : کھجوروں وغیرہ کا باغ ۔ نشاط آور: دل کو خوش کرنے والا ۔ پُر سوز: گرم، مسرت آمیز ۔ دستِ صبا: صبح کی ہوا کا ہاتھ جسے لہرانے سے پھول کھلتے ہیں ۔ مرا جنوں میری قبا چاک: میرا جذبہ محبت مجھے کامیابی عطا کرتا ہے ۔
مطلب: یہ چار مصرعے ایک دلچسپ صورت حال کی جانب اشارہ کرتے ہیں اس صورت حال کو اقبال نے قطعہ میں منکشف کیا ہے ۔ فرماتے ہیں کہ کائنات کی ہر شے عملاً ایک دوسرے کی محتاج ہوتی ہے ۔ اس کی مثال غنچے کی ہے کہ باد صبا کی جھونکوں کے بغیر وہ پھول بننے کی استطاعت نہیں رکھتا تا ہم صرف انسان کو یہ شرف حاصل ہے کہ کسی کی پرو اکیے بغیر اپنی منزل مقصود تک رسائی حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے کہ انسان تو خودی کے جذبے کی بدولت اپنی پہچان اور معرفت الہٰی سے بہرہ ور ہو جاتا ہے جب کہ دوسری اشیاء کے لیے یہ ممکن نہیں ۔

—————————–

Transliteration

Iqbal Ne Kal Ahl-e-Khayaban Ko Sunaya
Ye Shair-e-Nishat Awar-o-Pursouz-o-Tarabnak

Iqbal recited once in a garden in Spring
A couplet cheerful and bright in tone and spirit:

Main Soorat-e-Gul Dast-e-Saba Ka Nahin Mouhtaj
Karta Hai Mera Josh-e-Junoon Meri Qaba Chaak

Unlike the rose, I need no breeze to blossom.,
My soul doth blossom with my ecstasy.

————————–

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button