ہسپانيہ
ہسپانیہ
(ہسپانیہ کی سرزمین پر لکھے گئے ۔ واپس آتے ہوئے)
ہسپانیہ تو خونِ مسلماں کا ا میں ہے
مانندِ حرم پاک ہے تو میری نظر میں
مطلب: ہسپانیہ وہ سرزمین ہے جہاں صدیوں تک نہ صرف یہ کہ مسلمانوں کا اقتدار قائم رہا بلکہ وہ وقفے وقفے سے عیسائی حکمرانوں کی یلغار کا مقابلہ کرتا رہا ۔ اس سرزمین کو مسلمانوں نے ہر ممکن جدوجہد اور قربانی سے زندگی کے ہر شعبے میں انتہائی عروج پر پہنچایا ۔ ہسپانیہ پر اپنا تسلط برقرا ر رکھنے اور اس سرزمین کے دفاع میں لاکھوں مسلمانوں نے اپنے خون کا نذرانہ پیش کیا ۔ اس لیے اگر اقبال اس سرزمین کو مسلمانوں کے خون کی امانت دار سمجھتے ہوئے اسے حرم کعبہ کی طرح پاک اور محترم گردانتے ہیں تو اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں ہے ۔ مسلمانوں کی قربانیوں کے سبب آج بھی ہسپانیہ کی تہذیب و ثقافت ساری دنیا میں قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے ۔
پوشیدہ تری خاک میں سجدوں کے نشاں ہیں
خاموش اذانیں ہیں تری بادِ سحر میں
مطلب: اے ہسپانیہ! جب بھی چشم بصیرت سے دیکھا تو یوں لگتا ہے کہ تیری خاک پر ابھی تک ان سجدوں کے نشان ثبت ہیں جو سات سو سال سے زیادہ عرصے تک یہاں مسلمانوں نے ادا کئے ۔ اسی طرح جب یہاں صبح کی ہوا چلتی ہے تو اس میں ماضی کی اذانوں کی گونج سنائی دیتی ہے ۔ اوراس دور کی یاد تازہ کر جاتی ہے ۔
روشن تھیں ستاروں کی طرح ان کی سنانیں
خیمے تھے کبھی جن کے ترے کوہ و کمر میں
مطلب: یہ سجدہ گزار وہی جاں نثار تھے ۔ جنگ و جدل کے دوران جن کی تلواریں اور نیزے اس طرح سے چمکتے تھے جیسے ستارے جگمگا رہے ہوں یہی وہ لوگ تھے جو آرام و آسائش کی پروا نہیں کرتے تھے ۔ بلکہ ان کے خیمے پہاڑوں کی چوٹیوں اور ان کے دامن میں نصب ہوتے تھے ۔ وہ ہر لمحے حالت جنگ میں ہوتے تھے اس لیے انہیں مستقل ٹھکانوں کی پرواہ نہ تھی ۔
پھر تیرے حسینوں کو ضرورت ہے حنا کی
باقی ہے ابھی رنگ مرے خونِ جگر میں
مطلب: ہسپانیہ کی سرزمین حال کی طرح ماضی میں بھی حسن و جمال کا سرچشمہ رہی ہے ۔ اقبال پیشکش کرتے ہیں کہ ہسپانیہ اگر تیری حسین صورت کو اپنے جمال میں اضافہ کرنے کی ضرورت ہے تو میرا خون ان کے لیے مہندی کا بدل ثابت ہو سکتا ہے اور ابھی اس خون کی ایک قلیل مقدار میرے جسم میں محفوظ ہے ۔
کیونکر خس و خاشاک سے دب جائے مسلماں
مانا وہ تب و تاب نہیں اس کے شرر میں
معانی: ہر چند کہ آج کے مسلمانوں میں وہ جذبہ ، حرارت اور غیرت باقی نہیں رہی جو ماضی کے ادوار میں ہوتی تھی اس کے باوجود وہ اپنے حریفوں سے ڈرنے والے نہیں ہیں ۔
غرناطہ بھی دیکھا مری آنکھوں نے، ولیکن
تسکینِ مسافر نہ سفر میں نہ حضر میں
مطلب: اقبال کہتے ہیں کہ ہسپانیہ میں قیام کے دوران میں نے غرناطہ کا مشہور شہر بھی دیکھا جو قرطبہ کی عظمت میں مٹ جانے کے بعد اندلس کے آخری مسلمان حکمران کا دارالحکومت بنا اور جہاں وہ مشہور زمانہ شاہی محل اب تک موجود ہے جو الحمرا کے نام سے موسوم ہے اور دنیا کے سات عجائبات میں شمار ہوتا ہے ۔ مراد یہ ہے کہ غرناطہ جیسے عظیم الشان مناظر دیکھنے کے باوجود سکون قلب میسر نہیں ہوا ۔
دیکھا بھی دکھایا بھی، سنایا بھی سنا بھی
ہے دل کی تسلی نہ نظر میں ، نہ خبر میں
مطلب: اس آخری شعر میں کہا گیا ہے کہ میں نے (اقبال نے) ہسپانیہ کے دوران قیام ہر نوع کے خوشنما مناظر بھی دیکھے اور ان کے بارے میں دوسروں سے مختلف نوعیت کی داستانیں بھی سنیں ۔ ان کا جلال و جمال اپنے اشعار کے ذریعے دوسروں تک پہنچانے کے علاوہ وہ باتیں بھی دہرائیں جو اوروں کی زبانی سنی تھیں اس کے باوجود ہ میں سکون قلب حاصل نہ ہو سکا ۔
————————–
Transliteration
Haspania
(Haspania Ki Sar Zameen Mein Likhe Gye)
(Wapis Ate Huwe)
Haspania Tu Khoon-e-Musalman Ka Ameen Hai
Manind-e-Haram Pak Hai Tu Meri Nazar Mein.
Poshida Teri Khak Mein Sajdon Ke Nishan Hain
Khamosh Azanain Hain Teri Baad-e-Sehar Mein
Roshan Thin Sitaron Ki Tarah In Ki Sananain
Khaime The Kabhi Jin Ke Tere Koh-o-Qamar Mein
Phir Tere Haseenon Ko Zaroorat Hai Hina Ki?
Baqi Hai Abhi Rang Mere Khoon-e-Jigar Mein !
Kyun Khs-o-Khashaak Se Dab Jaye Musalman
Mana, Woh Tab-e-Taab Nahin Iss Ke Sharar Mein
Garnata Bhi Dekha Meri Ankhon Ne Walekin
Taskeen-e-Musafir Na Safar Mein Na Hazr Mein
Dekha Bhi Dikhaya Bhi, Sunaya Bhi Suna Bhi
Hai Dil Ki Tasalli Na Nazar Mein, Na Khabar Mein!
————————–
SPAIN
(Written in Spain—on the way back)
Spain! You are the trustee of the Muslim blood:
In my eyes you are sanctified like the Harem.
Prints of prostration lie hidden in your dust,
Silent calls to prayers in your morning air.
In your hills and vales were the tents of those,
The tips of whose lances were bright like the stars.
Is more henna needed by your pretties?
My lifeblood can give them some colour!
How can a Muslim be put down by the straw and grass,
Even if his flame has lost its heat and fire!
My eyes watched Granada as well,
But the traveller’s content neither in journey nor in rest:
I saw as well as showed, I spoke as well as listened,
Neither seeing nor learning brings calm to the heart!