با ل جبر یل - رباعيات

کبھی تنہائی کوہ و دمن عشق

کبھی تنہائیِ کوہ و دمن عشق
کبھی سوز و سرور و انجمن عشق

کبھی سرمایہَ محراب و منبر
کبھی مولا علی خیبر شکن عشق

مطلب: اس رباعی میں اقبال نے عشق کے جذبے کی لامحدودیت کو اپنا موضوع بنایا ہے ۔ ان کے نزدیک ابھی تک عشق کی آماجگاہ پہاڑوں اور صحراؤں کی وسعت بلندی اور تنہائی ہے ۔ کبھی کسی محفل کا سوز اور سرخوشی عشق کے مظہر ہیں ۔ کبھی یہ عشق جب حقیقت الہٰی سے روشناس ہوتا ہے تو پھر محراب و منبر یعنی مسجد کی محراب اور اس کے منبر کا سرمایہ بن جاتا ہے ۔ اور جب عشق حقیقی کا جذبہ انتہا پر پہنچ جاتا ہے تو مولائے کائنات حضرت علی المرتضیٰ کے سیرت و کردار میں ڈھل جاتا ہے اور قلعہ خیبر کے ناقابل تسخیر دروازے کو اکھاڑ کر لشکر اسلامی کی کفار پر فتح کا سبب بن جاتا ہے ۔

—————————-

Transliteration

Kabhi Tanhai-e-Koh-o-Daman Ishq
Kabhi Souz-o-Suroor-o-Anjuman Ishq

Love, sometimes, is the solitude of Nature;
It is, sometime, merrymaking and company-seeking:

Kabhi Sarmaya-E-Mehrab-o-Manbar
Kabhi Moula Ali (R.A.) Khaybar Shikan Ishq!

Sometime the legacy of the mosque and the pulpit,
Sometime Lord Ali the Vanquisher of the Khyber!

————————–

محمد نظام الدین عثمان

نظام الدین، ملتان کی مٹی سے جڑا ایک ایسا نام ہے جو ادب اور شعری ثقافت کی خدمت کو اپنا مقصدِ حیات سمجھتا ہے۔ سالوں کی محنت اور دل کی گہرائیوں سے، انہوں نے علامہ اقبال کے کلام کو نہایت محبت اور سلیقے سے جمع کیا ہے۔ ان کی یہ کاوش صرف ایک مجموعہ نہیں بلکہ اقبال کی فکر اور پیغام کو نئی نسل تک پہنچانے کی ایک عظیم خدمت ہے۔ نظام الدین نے اقبال کے کلام کو موضوعاتی انداز میں مرتب کیا ہے تاکہ ہر قاری کو اس عظیم شاعر کے اشعار تک باآسانی رسائی ہو۔ یہ کام ان کے عزم، محبت، اور ادب سے گہری وابستگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس کے ساتھ ہی، انہوں نے دیگر نامور شعرا کے کلام کو بھی یکجا کیا ہے، شاعری کے ہر دلدادہ کے لیے ایک ایسا وسیلہ مہیا کیا ہے جہاں سے وہ اپنے ذوق کی تسکین کر سکیں۔ یہ نہ صرف ایک علمی ورثے کی حفاظت ہے بلکہ نظام الدین کی ان تھک محنت اور ادب سے محبت کا وہ شاہکار ہے جو ہمیشہ زندہ رہے گا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button