کبھی تنہائی کوہ و دمن عشق
کبھی تنہائیِ کوہ و دمن عشق
کبھی سوز و سرور و انجمن عشق
کبھی سرمایہَ محراب و منبر
کبھی مولا علی خیبر شکن عشق
مطلب: اس رباعی میں اقبال نے عشق کے جذبے کی لامحدودیت کو اپنا موضوع بنایا ہے ۔ ان کے نزدیک ابھی تک عشق کی آماجگاہ پہاڑوں اور صحراؤں کی وسعت بلندی اور تنہائی ہے ۔ کبھی کسی محفل کا سوز اور سرخوشی عشق کے مظہر ہیں ۔ کبھی یہ عشق جب حقیقت الہٰی سے روشناس ہوتا ہے تو پھر محراب و منبر یعنی مسجد کی محراب اور اس کے منبر کا سرمایہ بن جاتا ہے ۔ اور جب عشق حقیقی کا جذبہ انتہا پر پہنچ جاتا ہے تو مولائے کائنات حضرت علی المرتضیٰ کے سیرت و کردار میں ڈھل جاتا ہے اور قلعہ خیبر کے ناقابل تسخیر دروازے کو اکھاڑ کر لشکر اسلامی کی کفار پر فتح کا سبب بن جاتا ہے ۔
—————————-
Transliteration
Kabhi Tanhai-e-Koh-o-Daman Ishq
Kabhi Souz-o-Suroor-o-Anjuman Ishq
Love, sometimes, is the solitude of Nature;
It is, sometime, merrymaking and company-seeking:
Kabhi Sarmaya-E-Mehrab-o-Manbar
Kabhi Moula Ali (R.A.) Khaybar Shikan Ishq!
Sometime the legacy of the mosque and the pulpit,
Sometime Lord Ali the Vanquisher of the Khyber!
————————–