با ل جبر یل - رباعيات

رگوں ميں وہ لہو باقی نہيں ہے

رگوں میں وہ لہو باقی نہیں ہے
وہ دل، وہ آرزو باقی نہیں ہے

نماز و روزہ و قربانی و حج
یہ سب باقی ہے، تُو باقی نہیں ہے

مطلب: اقبال کے بقول ملت کی رگوں میں ماضی کی طرح خون کی وہ گردش نہیں رہی جو جوش عمل سے دوچار کرتی تھی ۔ پھر یہ بھی ہے کہ نہ تو دل میں خلوص باقی رہا ہے نہ ایسی خواہش جو عروج انسانی کی مظہر ہوتی ہے ۔ ہر چند کہ آج بھی ظاہری سطح پر نماز، روزہ، قربانی اور حج کی روایات تو باقی رہ گئیں لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ وہ مسلمان باقی نہیں رہا جس کی شخصیت اور کردار ان خصوصیات کے اہل گردانے جاتے تھے ۔

——————-

Transliteration

Ragon Mein Woh Lahoo Baqi Nahin Hai
Woh Dil, Woh Arzoo Baqi Nahin Hai

That blood of pristine vigour is no more;
That yearning heartʹs power is no more;

Namaz-o-Roza-o-Qurbani-o-Hajj
Ye Sub Baqi Hain, Tu Baqi Nahin Hai

Prayer, fasting, hajj, sacrifice survive,
But in thee natureʹs old dower is no more.

————————–

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button