حکيمی، نامسلمانی خودی کی
حکیمی، نامسلمانی خودی کی
کلیمی رمزِ پنہانی خودی کی
تجھے گُر فقر و شاہی کا بتا دوں
غریبی میں نگہبانی خودی کی
معانی: حکیمی: حکمت، فلسفہ ۔ نامسلمانی: اسلام سے باہر ہونا ۔ کلیمی: حضرت موسیٰ کا اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہونا ۔ پنہائی: خفیہ اشارے ۔ گُر: طریقہ ۔ نگہبانی: حفاظت ۔
مطلب: عقل و دانش اور خودی کے بارے میں علامہ اقبال کے جو تصورات ہیں وہ ان کے بیشتر اشعار اور نظموں کے حوالے سے سامنے آ چکے ہیں ۔ زیر تشریح رباعی بھی انہی تصورات کی آئینہ دار ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ جو انسان حکمت و دانش اور فلسفے کی گتھیوں میں الجھا رہتا ہے اس کا یہ عمل خودی کی نفی ہے اس لیے کہ حکمت و دانش اور فلسفہ اپنے اپنے انداز میں مسائل کا تجزیہ تو کرتے ہیں لیکن ان مباحث اور جائزوں میں نہ تو یقین و اعتماد ہوتا ہے نا ہی وہ عرفان جو ایمان کا جوہر ہے ۔ خودی کے اسرار و رموز کو جاننے کے لیے تو حضرت موسیٰ جیسے اولو العزم پیغمبروں کا کردار پیش نظر رکھنا ہو گا کہ جابروں سے مظلوموں کو نجات دلانا جذبہ خودی کا ہی کارنامہ ہے ۔ ایسے ہی کردار میں خودی کے راز مضمر ہوتے ہیں ۔ رباعی کے دوسرے شعر میں اقبال ایک اور نکتہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ فقیری اور درویشی میں بھی بادشاہوں جیسی عظمت اور وقار کا حصول اس صورت میں ممکن ہے کہ انسان اپنی خودی کو حرص و ہوس اور ہر نوع کی غلاظت سے بچائے رکھے ۔ یہی وہ گر ہیں جن کے ذریعے خودی کا حقیقی نقشہ سامنے آتا ہے ۔
———————–
Transliteration
Hakeemi, Na-Musalmani Khudi Ki
Kaleemi, Ramz-e-Pinhani Khudi Ki
Theorizing is the infidelity of the self:
To be a Moses is the secret of the self;
Tujhe Gurr Faqr-o-Shahi Ka Bata Doon
Ghareebi Mein Nighebani Khudi Ke !
Let me tell you the mystery of faqr as well as power:
Guard your self while in poverty.
————————–