دم عارف نسيم صبح دم ہے
دمِ عارف نسیمِ صبحدم ہے
اسی سے ریشہَ معنی میں نم ہے
اگر کوئی شعیب آئے میسر
شبانی سے کلیمی دو قدم ہے
مطلب: اس رباعی میں کہا گیا ہے کہ جو شخص صاحب عرفان ہوتا ہے اس کا سانس بھی نسیم سحری کے مانند لطافت کی حامل ہوتی ہے اور اسی کے سبب انسان حقیقت ابدی سے آشنا ہوتا ہے ۔ اس کی بے حد اہم مثال رب ذوالجلال کے دو پیغمبروں حضرت شعیب اور حضرت موسیٰ کی ہے کہ آخر الذکر نے اول اول حضرت شعیب کی بکریاں چرائیں پھران کے اتنے محبوب ہو گئے کہ حضرت شعیب نے انہیں اپنا داماد بنا لیا اور بیٹی سونپ دی ۔ مراد یہ ہے کہ صاحب عرفان کسی بھی معمولی شخص کو انتہائی رفعتوں سے دوچار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔
———————–
Transliteration
Dam-e-Arif Naseem-e-Subahdam Hai
Issi Se Resha-e-Ma’ani Mein Nam Hai
The mysticʹs soul is like the morning breeze:
It freshens and renews lifeʹs inner meaning;
Agar Koi Shoaib Aye Mayassar
Shabani* Se Kaleemi Do Kadam Hai
*Shaban ka matlab Charwaha/Gaderiya
An illumined soul can be a shepherdʹs, who
Could hear the Voice of God at Godʹs command.
————————–