با نگ درا - غز ليات - (حصہ سوم)علامہ اقبال شاعری

نالہ ہے بلبل شوريدہ ترا خام ابھي

نالہ ہے بلبلِ شوریدہ ترا خام ابھی
اپنے سینہ میں اسے اور ذرا تھام ابھی

 

معانی: شوریدہ: دیوانی ۔ خام: کچا، بے اثر ۔ تھامنا: روکے رکھنا ۔
مطلب: اے شاعر! تو جس عصری صورت حال میں نا آسودگی کے سبب یوں آہ و زاری کر رہا ہے تو امر واقع یہ ہے کہ اس عمل میں سوز دروں شامل نہیں جس کے سبب تیرے نالے ناپختہ ہیں ۔ لہذا تجھ پر لازم ہے کہ ان میں مزید سوز اور درد پیدا کر ۔

پختہ ہوتی ہے اگر مصلحت اندیش ہو عقل
عشق ہو مصلحت اندیش تو ہے خام ابھی

معانی: مصلحت اندیش: اپنی بھلائی کا سوچنے والی ۔
مطلب: اس شعر میں اقبال ایک حکیمانہ نکتہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ عقل اگر مصلحت اندیشی کی قائل ہو جائے تو یہ اس کی پختگی کی دلیل ہے ۔ اس کے برعکس عشق میں مصلحت اندیشی جذبے کی خامی کی مظہر ہے ۔

بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق
عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی

معانی: بے خطر: بے خوف ہو کر ۔ آتشِ نمرود: حضرت ابراہیم کے زمانے کے بادشاہ نمرود کی بھڑکائی ہوئی آگ جس میں آپ کو ڈالا گیا تو وہ حکم خدا سے گلزار بن گئی ۔ عشق: اشارہ ہے حضرت ابراہیم کی طرف جو محبوب حقیقی کے عشق سے سرشار تھے ۔ محو: مصروف، ڈوبی ہوئی ۔ تماشائے لبِ بام: چھت پر نظارہ کرنے کا عالم ۔
مطلب: اس کا ثبوت یہ ہے کہ حضرت ابراہیم عشق الہٰی کے طفیل انجام کی پرو اکیے بغیر نمرود کی آگ میں کود پڑے ۔ اس کے برعکس اگر یہ عمل عقل و دانش تک محدود ہوتا تو وہ پہلے تمام حالات کا احتیاط سے جائزہ لیتے اور فوری عمل سے گریز کرتے ۔

عشق فرمودہَ قاصد سے سبک گامِ عمل
عقل سمجھی ہی نہیں معنیِ پیغام ابھی

معانی: فرمودہَ قاصد: یعنی حضور اکرم نے جو کچھ فرمایا، حکم دیا ۔ سبک گامِ عمل: اس پر تیزی سے عمل کرنے والا ۔ معنیِ پیغام: حکم کی حقیقت، مطلب ۔
مطلب: محبوب کی جانب سے پیغام ملتے ہی عشق تو بے دریغ اس پر عمل کرنے میں مصروف ہو جاتا ہے جب کہ اپنی تمام تر تیزی و طراری کے باوجود عقل اس پیغام کو بروئے کار لانے میں تذبذب کا شکار رہتی ہے ۔

شیوہَ عشق ہے آزادی و دہر آشوبی
تو ہے زنّاری بت خانہَ ایّام ابھی

معانی: دہر آشوبی: دنیا میں ہنگامے پیدا کرنا، انقلاب لانا ۔ زنّاری: گلے میں دھاگا ڈالنے والا، مراد پوجا کرنے والا ۔ بت خانہَ ایام: مراد زمانے، وقت کی گردش ۔
مطلب: عشق کا طرز عمل تو آزادی اور انقلاب سے ہم آہنگ ہے جب کہ تو دعویٰ عشق کرنے کے باوجود ابھی تک اپنے آ پ میں گم ہے ۔

عذرِ پرہیز پہ کہتا ہے بگڑ کر ساقی
ہے ترے دل میں وہی کاوش انجام ابھی

معانی: عذرِ پرہیز: بچنے کی معذرت، بہانہ ۔ کاوش: فکر، خلش ۔
مطلب: اے شخص! تو جو عمل کے سلسلے میں حیل و حجت سے کام لے رہا ہے تو اس کا مطلب تو یہی ہوا کہ تجھے اس عمل اور اس سے پیدا ہونے والے نتاءج پر یقین نہیں ہے ۔

سعیِ پیہم ہے ترازوئے کم و کیفِ حیات
تیری میزاں ہے شمارِ سحر و شام ابھی

معانی: سعی پیہم: لگاتار کوشش، جدوجہد ۔ کم و کیف: کتنا اور کیسا ۔ ترازو: پیمانہ ، میزان ۔ شمارِ سحر و شام: یعنی گردشِ وقت میں الجھے رہنا ۔
مطلب: زندگی کی تمام کیفیات کا دارومدار جدوجہد اور عمل پر ہے جب کہ تو ابھی تک صبح و شام کے چکر میں پڑا ہوا ہے ۔

ابرِ نیساں ! یہ تنک بخشیِ شبنم کب تک
مرے کُہسار کے لالے ہیں تہی جام ابھی

معانی: نیساں : موسمِ بہار کا بادل ۔ تنک بخشی: بہت کم دینا ۔ کہسار: جہاں بہت سی پہاڑیاں ہوں ۔ تہی جام: خالی پیالے والے ۔
مطلب: اس شعر کا مفہوم یہی ہے کہ سمندر سے ملے پیاسے کو شبنم ۔ بخیلی ہے یہ رزاقی نہیں ہے ۔

بادہ گردانِ عجم وہ، عربی میری شراب
مرے ساغر سے جھجکتے ہیں مے آشام ابھی

معانی: بادہ گردانِ عجم: یعنی غیر اسلامی شراب پینے والے، مراد غیر اسلامی درسگاہوں میں تعلیم پانے والے ۔ عربی میری شراب: یعنی اسلامی خیالات کی حامل شاعری ۔ ساغر: شراب کا پیالہ ۔ مے آشام: شراب پینے والے یعنی مغربی درسگاہوں کا مسلمان طالب علم ۔
مطلب: میرے نقطہ نظر کو قبول کرنے سے لوگ اس لیے جھجکتے ہیں کہ یہ ان کی فطرت اور افتاد طبع کے منافی ہے ۔

خبر اقبال کی لائی ہے گلستاں سے نسیم
نَو گرفتار پھڑکتا ہے تہِ دام ابھی

معانی: نسیم: صبح کی ہوا ۔ نو گرفتار: مراد بری عادتیں چھوڑ کر نیا صحیح راستہ پر چلنے والا ۔ تہِ دام: جال کے نیچے ۔
مطلب: گلستان میں صبح کی تازہ ہوا یہ خبر لے کر آئی ہے کہ نیا نیا گرفتار ہونے والا یہ شخص اپنے قفس میں مضطرب ہے اور آزادی کے لیے جدوجہد کر رہا ہے

———————
Translation

O dejected nightingale your lament is immature still
You should hold it in your breast for a little while still

If Intellect is prudent it is considered mature
If Love is prudent it is considered immature still

Love fearlessly jumped into the fire of Namrud
Intellect is absorbed in the spectacle from roof‐top still

Love moves fast in action under the messenger’s precept
Intellect has not even understood the Love’s message still

The way of Love is freedom and world revolution
You are imprisoned in day and night’s temple still

On the plea of temperance the cup‐bearer says rudely
In your heart is the same anxiety for the end still

Constant struggle is the measure for life’s Kamm and Kaif
Your measure is the counting of days and nights still

O spring rain! How long this miserliness?
The tulips of my hillside are thirsty still

They are accustomed to `Ajam’s wine I have the `Arab wine
My cup makes wine‐drinkers startled still

Zepheyr has brought news about Iqbal from the garden
The newly seized is writhing under the net still

Transition

Nala Hai Bulbul-e-Shourida Tera Khaam Abhi
Apne Seene Mein Isse Aur Zara Thaam Abhi

Pukhta Hoti Hai Agar Muslihat Andaish Ho Aqal
Ishq Ho Muslihat Andaish To Hai Khaam Abhi

Be-Khatar Kood Para Aatish-e-Namrood Mein Ishq
Aqal Hai Mehv-e-Tamasha-e-Lab-e-Baam Abhi

Ishq Farmouda-e-Qasid Se Subak Gaam-e-Amal
Aqal Samajhi Hi Nahin Maani-e-Pegham Abhi

Shewa-e-Ishq Hai Azadi-o-Dehr Ashobi
Tu Hai Zunnari-e-Butkhana-e-Ayyam Abhi

Uzr-e-Parhaiz Pe Kehta Hai Bigar Kar Saqi
Hai Tere Dil Mein Wohi Kaswish-e-Anjam Abhi

Sae-e-Peham Hai Tarazuye Kam-o-Kaif-e-Hayat
Teri Meezan Hai Shumar-e-Sehar-o-Shaam Abhi

Abar-e-Neesan! Ye Tunak Bakhsi-e-Shabnam Kab Tak
Mere Kuhsar Ke Lale Hain Tehi Jaam Abhi

Badah Gardan-e-Ajam Woh, Arabi Meri Sharab
Mere Saghir Se Jhijhakte Hain Mai Ashaam Abhi

Khabar Iqbal Ki Layi Hai Gulistan Se Naseem
Nau Griftar Pharakta Hai Teh-e-Daam Abhi

——————-

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button