بال جبریل (حصہ اول)علامہ اقبال شاعری

اگر کج رو ہيں انجم ، آسماں تيرا ہے يا ميرا

اگر کج رو ہیں انجم، آسماں تیرا ہے یا میرا
مجھے فکرِ جہاں کیوں ہو، جہاں تیرا ہے یا میرا

معانی: کج رو ہیں انجم: ٹیڑھے چلنے والے ستارے ۔
مطلب: اس غزل کے اس پہلے شعر میں اقبال خداوند عزوجل سے مخاطب ہوتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر ستاروں کی چال درست نہیں تو اس کے لیے مجھے تو سزاوار نہیں ٹھہرایا جا سکتا کہ آسمان کا مالک بھی تو ہی ہے اور اس پر جگمگاتے ہوئے ستاروں پر بھی تیرا ہی اختیار ہے ۔ بے شک تو ہی قادر مطلق ہے اور میں تو ایک عاجز و لاچار بندہ ہوں ۔ اس جہان کی فکر بھی مجھے نہیں بلکہ تجھے ہی ہونی چاہیے کہ یہ جہاں یقینا تیرا ہی پیدا کردہ ہے ۔

اگر ہنگامہ ہائے شوق سے ہے لا مکاں خالی
خطا کس کی ہے یارب! لامکاں تیرا ہے یا میرا

معانی: ہنگامہ ہائے شوق: شوق کی رونقوں سے ۔ لامکاں خالی: جہاں کوئی نہ رہتا ہو ۔
مطلب: یہ لامکاں ، یہ فضائے بسیط بھی تیری ہی دسترس میں ہے ۔ اس کے باوجود اگر یہاں تجھ سے والہانہ شگفتگی کا اظہار نہیں ہوتا تو اس کی ذمہ داری بھی اے خدا تجھ پر ہے ۔ مجھ پر تو نہیں ہو سکتی ۔

اسے صبحِ ازل انکار کی جرات ہوئی کیونکر
مجھے معلوم کیا وہ رازداں تیرا ہے یا میرا

معانی: اسے : ابلیس کو ۔ صبح ازل: پہلے دن ۔ رازداں تیرا: بھید جاننے والا ۔
مطلب: ابلیس نے جو تیرے احکام سے روگردانی کی تو اپنے مقام پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر اسے انکار کی جرات کیونکر ہوئی ۔ اس لیے کہ ابلیس تو تیرے وابستگان خاص میں سے تھا اور تیرا رازدان بھی تھا ۔ اس صورت میں میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ اس ساری صورت حال کا تعلق مجھ سے تو نہیں تھا بلکہ تجھ سے اور صرف تجھ سے تھا ۔

محمدبھی ترا، جبریل بھی، قرآن بھی تیرا
مگر یہ حرفِ شیریں ترجماں تیرا ہے یا میرا

معانی: اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ خاتم الانبیاَ پیغمبر انقلاب حضور سرورکائنات احمد مصطفی ﷺ تیرے تھے ۔ تمام فرشتوں میں افضل و اعلیٰ حضرت جبرئیل جو تیری وحی انبیاَ کرام کو پہنچایا کرتے تھے ان کا تعلق بھی تجھ سے ہی تھا ۔ پھر وہ صحیفہَ کاملہ جب قرآن کی صورت میں پیغمبر آخر الزماں پر نازل ہوا وہ بھی تیرا تھا مگر وہ حرف شیریں جو وحی کی صورت میں نازل ہوا میرا تو نہیں تیرا ہی تھا ۔

  اسی کوکب کی تابانی سے ہے تیرا جہاں روشن
زوالِ آدمِ خاکی زیاں تیرا ہے یا میرا

معانی: کوکب: ستارہ یعنی آدمی ۔ زوالِ آدم خاکی: آدمی کا اپنے رہتے اور مقام سے گر جانا ۔ زیاں : نقصان یعنی اے اللہ اس کو تو نے ہی بنایا اور اس کے گرنے سے نقصان تیرا ہی ہوا ۔
مطلب: کائنات میں انسان کی حیثیت اس تابندہ ستارے کی طرح ہے جس سے سارا جہاں منور ہوتا ہے اور یہ روشنی تیری شناخت کا سبب بنتی ہے ۔ چنانچہ اگر یہی انسان زوال سے دوچار ہوا تو اس میں نقصان تیرا ہی ہے میرا نہیں ۔

……………………………….

TRANSLITERATION

Agar Kaj Ro Hain Anjum, Asman Tera Hai Ya Mera
Mujhe Fikar-e-Jahan Kyun Ho, Jahan Tera Hai Ya Mera?

Agar Hangama Ha’ay Shauq Se Hai La-Makan Khali
Khata Kis Ki Hai Ya Rab ! La-Makan Tera Hai Ya Mera?

Usse Subah-e-Azal Inkaar Ki Juraat Hui Kyun Kar
Mujhe Maloom Kya, Woh Raazdan Tera Hai Ya Mera?

Muhammad (S.A.W.) Bhi Tera, Jibreel Bhi, Quran Bhi Tera
Magar Ye Harf-e-Shireen Tarjuman Tera Hai Ya Mera?

Issi Koukab Ki Tabani Se Hai Tera Jahan Roshan
Zawal-e-Adam-e-Khaki Zayan Tera Hai Ya Mera?

—————–

If the stars have strayed—To whom do the heavens belong, You or Me?
Why must I worry about the world—To whom does this world belong, You or Me?

If the Placeless Realm Offers no lively scenes of passion and longing,
Whose fault is that, my Lord?—Does that realm belong to You or to me?

On the morning of eternity he dared to say ʹNoʹ,
But how would I know why—Is he Your confidant, or is he mine?

Muhammad (PBUH) is Yours, Gabriel is Yours, The Qurʹan is Yours—
But this discourse, This exposition in melodious tunes, Is it Yours or is it mine?

Your world is illuminated by the radiance of the same star
Whose loss was the fall of Adam, that creature of earth, Was it Yours or mine?

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button