با ل جبر یل - منظو ما ت

خوشحال خاں کي وصيت

قبائل ہوں ملّت کی وحدت میں گم
کہ ہو نام افغانیوں کا بلند

مطلب: قبائل: قبیلے ۔ ملت کی وحدت: قومی اتحاد ۔ گم: ختم ہو جائیں ۔
مطلب: خوشحال خاں خٹک پشتو زبان کا مشہور حریت پسند اور صاحب دیوان شاعر تھا اس کی کم و بیش ایک سوبلند پایہ نظمیں پشتو زبان میں منتقل ہو کر شاءع ہو چکی ہیں ۔ خوشحال کے دیوان کے اردو زبان میں بھی ترجمے شاءع ہو چکے ہیں ۔ وہ مغلوں کے تسلط سے افغانستان کو آزاد کرانے کا خواہاں تھا ۔ اورنگ زیب کے عہد میں اس نے متعدد پٹھان قبیلوں کو اکٹھا کر کے مغل سلطنت سے زبردست معرکہ آرائی کی تاہم محض ایک آفریدی قبیلہ تھا جو آخر دم تک اس کے ہم رکاب رہا ۔ علامہ اقبال کے نزدیک خوشحال خاں خٹک ایک ایسی شخصیت تھے جنھوں نے آزادی کی خاطر تمام عمر مغلوں کے خلاف نبرد آزمائی میں گزار دی ۔ چار اشعار پر یہ مختصر نظم خوشحال خان کے جراَت مندانہ کردار کی جانب اشارہ کرتی ہے ۔ فرماتے ہیں افغان باشندوں کے لیے یہ امر ناگزیر ہے کہ ان کے تمام قبائل یکجا ہو جائیں تا کہ وہ مغلوں کے خلاف اپنی آزادی کے لیے معرکہ آرا ہو سکیں ۔ صرف اسی طرح سے ان کا نام بلند ہو سکتا ہے اور وہ سرخرو بھی ہو سکتے ہیں ۔

محبت مجھے اُن جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند

معانی: ستاروں پہ کمند: جراَت مندانہ کام ۔
مطلب: خوشحال خان کہتے ہیں کہ میں تو ایسے جوانمردوں کا والہ و شیدہ ہوں جو ستاروں پر بھی کمند ڈالنے سے گریز نہیں کرتے ۔ مراد ان جوان مردوں سے ہے جو ارضی مملکتیں تو الگ رہیں آسمان کو تسخیر کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں اور

مغل سے کسی طرح کمتر نہیں
قہستاں کا یہ بچہَ ارجمند

مطلب: خوشحال خان کہتے ہیں کہ یہ علاقہ تو خیر تیرا اور میرے ہم وطنوں کا ہے ۔ اس پر مغل فوجوں کی یلغار کیسے برداشت ہو سکتی ہے ۔

کہوں تجھ سے اے ہم نشیں دل کی بات
وہ مدفن ہے خوشحال خاں کو پسند

مطلب: اے میرے دوست میں تجھے دل کی بات کہنا چاہتا ہوں کہ مجھے دفن ہونے کے لیے وہ زمین پسند ہے ۔

اُڑا کر نہ لائے جہاں بادِ کوہ
مغل شہسواروں کی گردِ سمند

معانی: بادہِ کوہ: پہاڑی ہوا ۔ گردِ سمند: گھوڑوں کی گرد ۔
مطلب: جہاں مغل شہسواروں کے قدموں سے اڑتی ہوئی خاک بھی نہ پہنچ سکے ۔ مراد یہ ہے کہ ایک حریت پسند اور جنگجو کی حیثیت میں خوشحال خاں کا سینہ مغلوں کے خلاف شدید نفرت کی آماجگاہ تھا ۔ وہ سمجھتا تھا کہ مغلوں نے اس کے ملک پر غاصبانہ قبضہ کر کے افغان باشندوں کی آزادی سلب کر لی ہے ۔ یہی جذبہ تھا جس کے تحت وہ ساری عمر مغلوں کے خلاف نبردآزما رہا ۔


—————————

Transliteration

*The Last Testament Of Khush‐Hal Khan Khattak

Let the tribes be lost in the unity of the nation,
So that the Afghans gain prestige!

The youth to whom the stars are not out of bounds
Are the ones I love indeed—

In no way is this child of the mountains
Inferior to the Mughal.

May I tell you my secret, O Comrade:
Khush‐hal Khan would much like that his burial place

Be far from the reaches of the dust blown by the Mughal cavalry,
Carried by the mountain wind.

*Khush‐hal Khan Khattak was a well‐known patriotic poet of Pushto who forged a union of Afghan tribes of the Frontier to liberate Afghanistan from the Mughals. Only the Afridis among the tribes remained on his side till the last. About a hundred of his poems were published in translation from London in 1862.

————————–

Khushhal Khan Ki Wasiyat

Qabail Hon Millat Ki Wahdat Mein Gum
Ke Ho Naam Afghaniyon Ka Buland

Mohhabbat Mujhe Un Jawanon Se Hai
Sitaron Pe Jo Dalte Hain Kum

Mughal Se Kisi Tarah Kamtar Nahin
Kehistan Ka Ye Bacha-e-Arjumand

Kahun Tujh Se Ae Hum Nasheen Dil Ki Baat
Who Madfan Hai Khushhal Khan Ko Pasand

Ura Kar Na Laye Jahan Bad-e-Koh
Mughal Shahsawaron Ki Gard-e-Samand!

————————–

ء کو مغلوں خوشحال خاں خٹک پشتوزبان کا مشہور وطن دوست شاعر تھا جس نے
ميں سو کي -قبائل ميں سے آزادکرانے کے ليے سرحد کے افغاني قبائل کي ايک
انگريزي نظموں کا صرف آفريديوں نے آخردم تک اس کا ساتھ ديا- اس کي
ترجمہجمعيت قائم1862لندن ميں شائع ہوا تھاقريبا ً ايک افغانستان

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button