بانگ درا (حصہ سوم)علامہ اقبال شاعری

شکوہ جواب شکوہ کی تشریح – Jawab-e-Shikwa Tashreeh

شکوہ جواب شکوہ کی تشریح

 

شکوہ“ کے جواب میں نظمیں دیکھ کراقبال کو خود بھی دوسری نظم ”جواب شکوہ“ لکھنی پڑی جو 1913ء کے ایک جلسہ عام میں پڑھ کر سنائی گئی۔ انجمن حمایت اسلام کے جلسے میں ”شکوہ “ پڑھی گئی تو وسیع پیمانے پر اس کی اشاعت ہوئی یہ بہت مقبول ہوئی لیکن کچھ حضرات اقبال سے بدظن ہو گئے اور ان کے نظریے سے اختلاف کیا۔ ان کا خیال تھا کہ ”شکوہ“ کا انداز گستاخانہ ہے۔ اس کی تلافی کے لیے اور یوں بھی شکوہ ایک طرح کا سوال تھا جس کا جواب اقبال ہی کے ذمے تھا۔

چنانچہ ڈیڑھ دو سال کے عرصے کے بعد انہوں نے ”جواب شکوہ“ لکھی۔ یہ 1913ء کے جلسے میں پڑھی گئی۔ جو نماز مغرب کے بعد بیرونی موچی دروازہ میں منعقد ہوا تھا۔ اقبال نے نظم اس طرح پڑھی کہ ہر طرف سے داد کی بوچھاڑ میں ایک ایک شعر نیلام کیا گیا اور اس سے گراں قدر رقم جمع کرکے بلقان فنڈ میں دی گئی۔

شکوہ کی طرح سے ”جواب شکوہ“ کے ترجمے بھی کئی زبانوں میں ملتے ہیں۔

شکوہ میں اقبال نے انسان کی زبانی بارگاہ ربانی میں زبان شکایت کھولنے کی جرات کی تھی یہ جرات عبارت تھی اس ناز سے جو امت محمدی کے افراد کے دل میں رسول پاک سے عقیدیت کی بناءپر پیدا ہوتی ہے۔ جواب شکوہ درحقیقت شکوہ کا جواب ہے۔ شکوہ میں مسلمانوں کی زبوں حالی بیاں کی گئی تھی اور اس کی وجہ پوچھی گئی تھی پھر وہاں مایوسی اور دل شکستگی کی ایک کیفیت تھی ۔

”جواب شکوہ“ اس کیفیت کی توجیہ ہے اور شکوہ میں اٹھائے جانے والے سوالات کے جواب دیے گئے ہیں۔ جواب شکوہ میں اسلامی تاریخ کے بعض واقعات اور جنگ بلقان کی طرف بھی اشارے ملتے ہیں.

شکوہ جواب شکوہ ایک مطالعہ مولانا صدرالحسن ندوی مدنی

Download PDF

————————————————————–

نظم جواب شکوہ بمع تشتریح

 

دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہيں’ طاقت پرواز مگر رکھتی ہے
قدسی الاصل ہے’ رفعت پہ نظر رکھتی ہے
خاک سے اٹھتی ہے ، گردوں پہ گزر رکھتی ہے

عشق تھا فتنہ گرو سرکش و چالاک مرا
آسماں چير گيا نالہ بے باک مرا

پہلا بند

میں نے اللہ کی جناب میں شکوہ کیا تھا کیونکہ وہ میرے دل کی گہرائیوں سے نکلا تھا اس لئے اس میں بڑی تاثیر پوشیدہ تھی،اور اس لیے وہ سب آسمانوں سے گزرتا ہوا عالم ملوک میں پہنچ گیا جہاں فرشتے رہتے ہیں۔

—————————–

پير گردوں نے کہا سن کے’ کہيں ہے کوئی
بولے سيارے’ سر عرش بريں ہے کوئی
چاند کہتا تھا’ نہيں! اہل زميں ہے کوئی
کہکشاں کہتی تھی’ پوشيدہ يہيں ہے کوئی

کچھ جو سمجھا مرے شکوے کو تو رضواں سمجھا
مجھے جنت سے نکالا ہوا انساں سمجھا

—————————–

دوسرا بند

فرشتے، سیارے، ستارے، چاند، کہکشاں سب حیران ہو گے کہ یہ کون ہے؟ لیکن نہ کر سکے،ہبں رضوان سمجھ گیا کہ یہ وہی ہے جسے کچھ عرصہ ہوا جنت سے نکالا گیا تھا۔

—————————–

تھی فرشتوں کو بھی حيرت کہ يہ آواز ہے کيا
عرش والوں پہ بھی کھلتا نہيں يہ راز ہے کيا
تا سر عرش بھی انساں کی تگ و تاز ہے کيا
آگئی خاک کی چٹکی کو بھی پرواز ہے کيا

غافل آداب سے سکان زميں کيسے ہيں
شوخ و گستاخ يہ پستی کے مکيں کيسے ہيں

تیسرا بند

فرشتے اس شکوہ کے انداز بیان سے بہت حیران تھے اور اس میں جو گستاخی اور شوخی کا رنگ پایا جاتا ہے اس پر بہت ناراض تھے۔ چنانچہ وہ کہنے لگے کہ یہ زمین کے لوگ بھی کتنے گستاخ اور سرکش ہوتے ہیں۔

—————————–

اس قدر شوخ کہ اللہ سے بھی برہم ہے
تھا جو مسجود ملائک’ يہ وہی آدم ہے
عالم کيف ہے’ دانائے رموز کم ہے
ہاں مگر عجز کے اسرار سے نامحرم ہے

ناز ہے طاقت گفتار پہ انسانوں کو
بات کرنے کا سليقہ نہيں نادانوں کو

چوتھا بند

حضرت انسان کی گستاخی تو دیکھو کہ اللہ سے بھی ناراض ہے! کیا یہ وہی آدمی جس پر خدا نے اس قدر انعام فرمایا کہ ہمیں سجدہ کرنے کا حکم دیا تھا؟ اگر یہ وہی ہے تب تو واقعی بڑا ناشکرا ہے یوں تو منطق اور فلسفہ دونوں میں طاق ہے لیکن بات کرنے کے سلیقہ سے محروم ہے۔

—————————–

آئی آواز’ غم انگيز ہے افسانہ ترا
اشک بے تاب سے لبريز ہے پيمانہ ترا
آسماں گير ہوا نعرئہ مستانہ ترا
کس قدر شوخ زباں ہے دل ديوانہ ترا

شکر شکوے کو کيا حسن ادا سے تو نے
ہم سخن کر ديا بندوں کو خدا سے تو نے

پانچواں بند

فرشتے یہ گفتگو اور تبصرہ کر ہی رہے تھے کہ عرش سے آواز آئی کہ انسان بے شک تیرا فسانہ بہت درد خیز ہے اور تیرا دل غموں سے چور ہے تو نے اپنے حسن بیان کی بدولت شکوہ کو شکر کے لباس میں پیش کیا ہے اور اس طرح بندوں کو خدا سے ہم کلامی کا شرف حاصل ہو گیا۔

—————————–

ہم تو مائل بہ کرم ہيں’ کوئی سائل ہی نہيں
راہ دکھلائيں کسے’ رہر و منزل ہی نہيں
تربيت عام تو ہے’ جوہر قابل ہی نہيں
جس سے تعمير ہو آدم کی’ يہ وہ گل ہی نہيں

کوئی قابل ہو تو ہم شان کئی ديتے ہيں
ڈھونڈنے والوں کو دنيا بھی نئی ديتے ہيں

چھٹا بند

اے انسان! تو نے شکر کے رنگ میں جو شکوہ ہم سے کیا اب اس کا جواب سن! ہم تو ہر وقت کرم کرنے کے لئے آمادہ ہیں، لیکن کوئی سائل بھی تو ہو۔ ہم سب کی تربیت کرنے کے لئے تیار ہیں لیکن جو شخص تربیت اور اصلاح قبول ہی نہ کرے تو ہم کیا کریں۔ اگر کوئی شخص بادشاہت کی قابلیت رکھتا ہے تو ہم ضرور اسے بادشاہ بنا دیتے ہیں۔

—————————–

ہاتھ بے زور ہيں’ الحاد سے دل خوگر ہيں
امتی باعث رسوائی پيغمبر ہيں
بت شکن اٹھ گئے’ باقی جو رہے بت گر ہيں
تھا براہيم پدر اور پسر آزر ہيں

بادہ آشام نئے ، بادہ نيا’ خم بھی نئے
حرم کعبہ نيا’ بت بھی نئے’ تم بھی نئے

ساتواں بند

لیکن اے مسلمانو! تمہاری حالت تو یہ ہے کہ تم دل میں ہمارے منکر ہو چکے ہو اور ہمارے رسول صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی تعلیمات سے بالکل برگشتہ ہو چکے ہو۔ تم میں جو لوگ بت شکن تھے وہ تو رخصت ہوگئے آپ جو باقی ہیں بت پرست ہیں۔ شریعت اسلامیہ پر قائم نہیں ہو بلکہ تمہارا کعبہ بھی مختلف ہے، تمہارے بت مثلاً دولت، عہدے،خطابات،جاگیریں بھی نئے ہیں اور تم خود بھی نئے ہو اور قبر کی پرستی میں لگ گئے ہو۔

—————————–

وہ بھی دن تھے کہ يہی مايہ رعنائی تھا
نازش موسم گل لالہ صحرائی تھا
جو مسلمان تھا’ اللہ کا سودائی تھا
کبھی محبوب تمھارا يہی ہرجائی تھا

کسی يکجائی سے اب عہد غلامی کر لو
ملت احمد مرسل کو مقامی کو لو

آٹھواں بند

ایک زمانہ وہ بھی تھا جب ہر مسلمان اللہ کا عاشق تھا اور وہ لوگ اسی کو پوجتے تھے اسی سے محبت کرتے تھے۔جسے آج تم ‘ہرجائی’ کہہ رہے ہو۔ دیکھو شکوہ بات کہنے کی نہیں تو بھی تو ہرجائی ہے۔ اچھی بات ہے اگر ہم ہرجائی ہیں تو تم کسی یکجائی کو اپنا خدا بنا لو،اسے عہد وفا باندھ لو، اس کی صورت یہ ہے کہ ہم نے تو ملت محمدیہ کو آفاق گیر بنا بنایا تھا یعنی جاپان سے مراکش تک سب مسلمان ایک قوم ہیں لیکن تم سب اپنے آپ کو مقامی کرلو یعنی کس ملک یا کسی نسل سے وابستہ کر لو۔ مطلب یہ ہے کہ اسلام کو چھوڑ کر کفر اختیار کر لو تاکہ کافروں کی طرح تم پر بھی فضل الہی نازل ہونے لگے۔

واضح ہو کہ یہ طنزیہ شاعری کی بہترین مثال ہے۔ اقبال نے درپردہ ہمیں یہ تلقین کی ہے کہ جب تک ہم ساری دنیا کے مسلمان عقیدۂ وحدت عملی پر عمل نہیں کریں گے یعنی ایک قوم نہیں بن جائیں گے تو اس وقت تک سربلندی حاصل نہیں کر سکتے۔ کیونکہ تمام کافر اقوام ہمارے مقابلہ میں ملت واحدہ بنی ہوئی ہیں۔

—————————–

کس قدر تم پہ گراں صبح کی بيداری ہے
ہم سے کب پيار ہے! ہاں نيند تمھيں پياری ہے
طبع آزاد پہ قيد رمضاں بھاری ہے
تمھی کہہ دو يہی آئين و فاداری ہے؟

قوم مذہب سے ہے’ مذہب جو نہيں’ تم بھی نہيں
جذب باہم جو نہيں’ محفل انجم بھی نہيں

نواں بند

اے مسلمانو! تمہاری حالت یہ ہے کہ تم ہماری عبادت پر خواب شریں کو ترجیح دیتے ہو، اور رمضان کے روزوں کو ایک مصیبت سمجھتے ہو۔ کیا یہی وفاداری کا طریقہ ہے؟ قوم تو مذہب سے بنتی ہے جب تم نے مذہب چھوڑ دیا تو قوم کس طرح زندہ رہ سکتی ہے؟ مثالا یوں سمجھو کہ اگر ستاروں میں جزب باہمی باقی نہ رہے تو کیا کوئی ستارہ اپنی جگہ پر قائم رہ سکتا ہے؟

—————————–

جن کو آتا نہيں دنيا ميں کوئی فن’ تم ہو
نہيں جس قوم کو پروائے نشيمن، تم ہو
بجلياں جس ميں ہوں آسودہ’ وہ خرمن تم ہو
بيچ کھاتے ہيں جو اسلاف کے مدفن، تم ہو

ہو نکو نام جو قبروں کی تجارت کرکے
کيا نہ بيچو گے جو مل جائيں صنم پتھر کے

دسواں بند

تم لوگ نہ کوئی فن جانتے ہو نہ کوئی ہنر، نہ کوئی شے ایجاد کرتے ہو نہ کوئی علمی تحقیق، تمہیں اپنے اسلاف کی عزت کی کوئی پرواہ نہیں بلکہ ان کی قبروں کو بیچ کر کھا رہے ہو، اور خدا کو چھوڑ صاحب قبر سے استعانت چاہتے ہو ان کی کفن تک بیچ کھاتے ہو۔ جب تم قبر فروشی کر سکتے ہو تو بت فروشی میں تمہیں کیا تأمل ہو سکتا ہے؟

—————————–

صفحہ دہرئے سے باطل کو مٹايا کس نے؟
نوع انساں کو غلامی سے چھڑايا کس نے؟
ميرے کعبے کو جبينوں سے بسايا کس نے؟
ميرے قرآن کو سينوں سے لگايا کس نے؟

تھے تو آبا وہ تھارے ہی’ مگر تم کيا ہو
ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا ہو

گیارہواں بند

بے شک مسلمانوں نے دنیا سے ہر شرک و کفر کو مٹایا اور انسانوں کو آزادی عطا کی، اور خدا کی اطاعت کی۔ خانہ کعبہ کی حفاظت کی، اور قرآن مجید کی اشاعت کی۔ لیکن یہ کام تو تمہارے بزرگوں نے کیا تھا۔ اب سوال یہ ہے کہ تم نے اسلام کی خاطر کیا کیا۔؟

—————————–

کيا کہا ! بہر مسلماں ہے فقط وعدہ حور
شکوہ بے جا بھی کرے کوئی تو لازم ہے شعور
عدل ہے فاطر ہستی کا ازل سے دستور
مسلم آئيں ہوا کافر تو ملے حور و قصور

تم ميں حوروں کا کوئی چاہنے والا ہی نہيں
جلوئہ طور تو موجود ہے’ موسی ہی نہيں

بارہواں بند

تم یہ شکایت کرتے ہو کہ مسلمان کے لئے صرف وعدۂ حور ہے حالانکہ یہ شکایت بلکل ناروا ہے۔ خدا تو ہمیشہ عادل رہا ہے۔کافروں کو دنیا کی نعمتیں اس لئے ملیں کہ انہوں نے اسلام کے اصول اختیار کرلیے۔ حق تو یہ ہے کہ تم میں کوئی مسلمان حوروں کا آرزومند ہی نہیں ہم تو آج بھی رحمت نازل کرنے کے لئے آمادہ ہیں لیکن کوئی ہمارے فضل و کرم کا مستحق ہی نہیں۔

—————————–

منفعت ايک ہے اس قوم کی’ نقصان بھی ايک
ايک ہی سب کا نبی’ دين بھی’ ايمان بھی ايک
حرم پاک بھی’ اللہ بھی’ قرآن بھی ايک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ايک

فرقہ بندی ہے کہيں اور کہيں ذاتيں ہيں
کيا زمانے ميں پنپنے کی يہي باتيں ہيں

تیرہواں بند

مسلمانوں کا دین ایک ہے، اللہ ایک ہے، رسول ایک ہے، خانہ کعبہ ایک ہے، قرآن مجید بھی ایک ہے، اندریں حالات اگر سارے مسلمان بھی ایک ہو جاتے تو کتنا اچھا ہوتا۔؟ اس کے برعکس تمہارا حال یہ ہے کہ تم مختلف فرقوں اور ذاتوں اور قبیلوں میں منقسم ہو گئے ہو کیا دنیا میں ترقی کرنے کی یہی صورت ہے؟

—————————–

کون ہے تارک آئين رسول مختار؟
مصلحت وقت کی ہے کس کے عمل کا معيار؟
کس کی آنکھوں ميں سمايا ہے شعار اغيار؟
ہوگئی کس کی نگہ طرز سلف سے بيزار؟

قلب ميں سوز نہيں’ روح ميں احساس نہيں
کچھ بھی پيغام محمد کا تمھيں پاس نہيں

چودھواں بند

تم شریعت اسلامیہ کے منکر ہو، تمہارا دین صرف مصلحت وقت ہے کہ جس بات میں نفع نظر آئے اسے اختیار کرلینا چاہیے۔ تم کافروں کی رسوم اور طرزِ معاشرت کو پسند کرتے ہو اور اپنے بزرگوں کے طریقوں سے بیزار ہو۔ نہ تمہارے دل میں اسلام کی محبت ہے اور نہ ہمارے رسول کے ارشاد سے کوئی سروکار ہے۔

—————————–

جاکے ہوتے ہيں مساجد ميں صف آرا’ تو غريب
زحمت روزہ جو کرتے ہيں گوارا ، تو غريب
نام ليتا ہے اگر کوئی ہمارا’ تو غريب
پردہ رکھتا ہے اگر کوئی تمھارا’ تو غريب

امرا نشہ دولت ميں ہيں غافل ہم سے
زندہ ہے ملت بيضا غربا کے دم سے

پندرہواں بند

حالت یہ ہے کہ آج اگر مساجد میں نماز پڑھنے آتے ہیں تو غریب، روزہ رکھتے ہیں تو غریب، ہمارا نام لیتے ہیں تو غریب۔ گویا تمہارا پردہ رکھتے ہیں تو غریب، دولت مند تو اپنی دولت کے نشہ میں ہم سے بالکل غافل ہیں۔ آج اگر اسلام زندہ ہے تو انہیں غریب مسلمانوں کے دم سے زندہ ہے۔

—————————–

واعظ قوم کی وہ پختہ خيالی نہ رہی
برق طبعی نہ رہی، شعلہ مقالی نہ رہی
رہ گئی رسم اذاں روح بلالی نہ رہی
فلسفہ رہ گيا ، تلقين غزالی نہ رہی

مسجديں مرثيہ خواں ہيں کہ نمازی نہ رہے
يعنی وہ صاحب اوصاف حجازی نہ رہے

سولہواں بند

نہ مسلمان واعظین کے وعظ میں کوئی اثر باقی ہے اور نہ انکے دل میں اسلام کی کوئی محبت ہے۔ اذان تو اب بھی ہوتی ہے لیکن اس میں نہ کوئی خلوص ہے نہ اسلام کی محبت کا رنگ ہے۔ مسلمان منطق و فلسفہ تو پڑھتے ہیں لیکن ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت نہیں کرتے یہی وجہ ہے کے آج مسجدیں ویران پڑی ہوئی ہیں۔

—————————–

شور ہے، ہو گئے دنيا سے مسلماں نابود
ہم يہ کہتے ہيں کہ تھے بھی کہيں مسلم موجود
وضع ميں تم ہو نصاری تو تمدن ميں ہنود
يہ مسلماں ہيں! جنھيں ديکھ کے شرمائيں يہود

يوں تو سيد بھی ہو، مرزا بھی ہو، افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو ، بتائو تو مسلمان بھی ہو

سترہواں بند

ایک شور مچا ہوا ہے کہ مسلمان مٹے جا رہے ہیں۔ لیکن سچی بات یہ ہے کہ مسلمان ہیں کہاں جو ان کے مٹنے کا ذکر کیا جارہا ہے۔ جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں ان کی حالت یہ ہے کہ وہ اپنی وضع قطع کے لحاظ سے عیسائی معلوم ہوتے ہیں اور وہ تمدن کے اعتبار سے ہندو نظر آتے ہیں اور معاملات کے اعتبار سے یہود سے بدتر ہیں۔ خاندانی لحاظ سے تم میں کوئی سید ہے، کوئی مرزا ہے، کوئی افغان ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کوئی مسلمان بھی ہے؟

—————————–

دم تقرير تھی مسلم کی صداقت بے باک
عدل اس کا تھا قوی، لوث مراعات سے پاک
شجر فطرت مسلم تھا حيا سے نم ناک
تھا شجاعت ميں وہ اک ہستی فوق الادراک

خود گدازی نم کيفيت صہبايش بود
خالی از خويش شدن صورت مينايش بود

اٹھارہواں بند

اگلے زمانے کے مسلمانوں کی کیفیت تو یہ تھی کہ وہ سچ بولنے سے بالکل نہیں ڈرتے تھے۔ وہ ہر شخص سے انصاف کرتے تھے۔ مسلمان اللہ کے عشق میں سرشار تھے اس لئے اس کی خاطر ہر قسم کی قربانی کرتے تھے اور دوسروں کی جان بچانے کے لئے اپنی زندگی بخوشی نثار کردیتے تھے۔

—————————–

ہر مسلماں رگ باطل کے ليے نشتر تھا
اس کے آئينۂ ہستی ميں عمل جوہر تھا
جو بھروسا تھا اسے قوت بازو پر تھا
ہے تمھيں موت کا ڈر، اس کو خدا کا ڈر تھا

باپ کا علم نہ بيٹے کو اگر ازبر ہو
پھر پسر قابل ميراث پدر کيونکر ہو

انیسواں بند

ہر مسلمان ہر وقت کفر و شرک کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار رہتا تھا اور سرگرم عمل تھا۔ ان کو ہم پر اور اس کے بعد اپنی قوتِ بازو پر بھروسہ تھا۔ تم ہو کہ موت سے ڈرتے ہو لیکن وہ ہم سے ڈرتا تھا۔ اگر تمہارے اندر تمہارے بزرگوں کی صفات نہیں ہیں تو تم کو وہ مرتبہ کیسے حاصل ہو سکتا ہے جو ان بزرگوں کو حاصل تھا۔؟

—————————–

ہر کوئی مست مے ذوق تن آسانی ہے
تم مسلماں ہو! يہ انداز مسلمانی ہے
حيدری فقر ہے نے دولت عثمانی ہے
تم کو اسلاف سے کيا نسبت روحانی ہے؟

وہ زمانے ميں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کر

بیسواں بند

تم میں سے ہر مسلمان آرام طلب ہے۔ نہ کسی میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی سی شان فکر پائی جاتی ہے نہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کی سی دولت نظر آتی ہے۔ اور اگر تم دنیا میں ذلیل و خوار ہوئے ہو تو اس لئے کہ تم مسلمان نہیں ہو۔

—————————–

تم ہو آپس ميں غضب ناک، وہ آپس ميں رحيم
تم خطاکار و خطابيں، وہ خطا پوش و کريم
چاہتے سب ہيں کہ ہوں اوج ثريا پہ مقيم
پہلے ويسا کوئی پيدا تو کرے قلب سليم

تخت فغفور بھی ان کا تھا، سرير کے بھی
يونہی باتيں ہيں کہ تم ميں وہ حميت ہے بھی؟

اکیسواں بند

تم آپس میں ایک دوسرے کے دشمن ہو لیکن تمہارے بزرگ آپس میں ایک دوسرے پر مہربان تھے۔ تم دوسروں کے عیب تلاش کرتے ہو اور وہ دوسروں کے عیبوں پر پردہ ڈال دیتے تھے۔ تم ان کی طرح سربلندی کے خواہشمند تو ضرور ہو لیکن کیا تمہارے دلوں میں اسلام کی ویسی ہی الفت ہے جیسی ان کے دلوں میں تھی؟

—————————–

خودکشی شيوہ تمھارا، وہ غيور و خود دار
تم اخوت سے گريزاں، وہ اخوت پہ نثار
تم ہو گفتار سراپا، وہ سراپا کردار
تم ترستے ہو کلی کو، وہ گلستاں بہ کنار

اب تلک ياد ہے قوموں کو حکايت ان کی
نقش ہے صفحہ ہستی پہ صداقت ان کی

بائیسواں بند

تم اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو تباہ کررہے ہو لیکن تمہارے اسلاف غیرت مند اور خوددار تھے۔ تم ایک دوسرے کے دشمن ہو اور وہ ایک دوسرے پر جان فدا کرتے تھے۔ تم صرف باتیں بنانی جانتے ہو لیکن وہ عمل کرتے تھے۔تم آج دولت کے لیے ترس رہے ہو لیکن دولت ان کے پاؤں چومتی تھی۔ آج بھی تاریخ ان کے کارناموں پر فخر کرتی ہے۔

—————————–

مثل انجم افق قوم پہ روشن بھی ہوئے
بت ہندی کی محبت ميں برہمن بھی ہوئے
شوق پرواز ميں مہجور نشيمن بھی ہوئے
بے عمل تھے ہی جواں ، دين سے بدظن بھی ہوئے

ان کو تہذيب نے ہر بند سے آزاد کيا
لا کے کعبے سے صنم خانے ميں آباد کيا

تئیسواں بند

تمہاری حالت یہ ہے کہ ہم نے تمہیں سروری دی لیکن تم نے اسلام کو چھوڑ کر کفر اختیار کرلیا اور رسول کو چھوڑ کر بتوں سے محبت کرنی شروع کردی۔ دنیاوی ترقی کی دوڑ میں اپنی ملی روایات سے بیگانہ ہو گئے۔ بے عمل تو تھے ہی دین سے بھی کنارہ کشی کر لیا۔ آج قوم کی یہ حالت ہے قیود سے بالکل آزاد ہو چکی ہے اور مسجدوں کے بجائے ہوٹل اور کلب آباد کر رہی ہے۔

—————————–

قيس زحمت کش تنہائی صحرا نہ رہے
شہر کی کھائے ہوا ، باديہ پيما نہ رہے
وہ تو ديوانہ ہے، بستی ميں رہے يا نہ رہے
يہ ضروری ہے حجاب رخ ليلا نہ رہے

گلہ جور نہ ہو ، شکوئہ بيداد نہ ہو
عشق آزاد ہے ، کيوں حسن بھی آزاد نہ ہو

چوبیسواں بند

مسلمان نوجوانوں کی حالت یہ ہے کہ ان کے سینے عشق رسولﷺ سے خالی ہو چکے ہیں اور مسلمان لڑکیاں پردہ سے بے نیاز ہوتی جاتی ہیں۔ نوجوان یہ کہتے ہیں کہ جب عاشق آزاد ہے تو معشوق کیوں پردہ میں رہے؟

—————————–

عہد نو برق ہے ، آتش زن ہر خرمن ہے
ايمن اس سے کوئی صحرا نہ کوئی گلشن ہے
اس نئی آگ کا اقوام کہن ايندھن ہے
ملت ختم رسل شعلہ بہ پيراہن ہے

آج بھی ہو جو براہيم کا ايماں پيدا
آگ کر سکتی ہے انداز گلستاں پيدا

پچیسواں بند

یہ موجودہ زمانہ جس میں مادیت برسر عروج ہے تمام قوموں کے لئے یکساں تباہی کا موجب ہے۔ یہ وہ آگ ہے جس میں ملت اسلامیہ تیزی کے ساتھ فنا ہوتی جارہی ہے۔ لیکن اگر آج بھی مسلمانوں میں ایمان کا رنگ پیدا ہوجائے تو یہی آگ ان کے حق میں گلزار ابراہیم بن سکتی ہے۔

—————————–

ديکھ کر رنگ چمن ہو نہ پريشاں مالی
کوکب غنچہ سے شاخيں ہيں چمکنے والی
خس و خاشاک سے ہوتا ہے گلستاں خالی
گل بر انداز ہے خون شہدا کی لالی

رنگ گردوں کا ذرا ديکھ تو عنابی ہے
يہ نکلتے ہوئے سورج کی افق تابی ہے

چھبیسواں بند

یہاں سے اس نظم کا انداز بدل جاتا ہے اور اقبال قوم کو امید کا مژدہ سناتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ملت اسلامیہ کی زبوں حالی سے مسلمانوں کو مایوس نہیں ہونا چاہیے، مصائب کے بادل عنقریب چھٹنے والے ہیں۔ملت اسلامیہ کی بہتری کے دن قریب آچکے ہیں۔ خون شہدا کی سرخی ہر طرف پھول برسا رہی ہے یعنی مسلمانوں میں زندگی کے آثار پیدا ہو رہے ہیں۔

—————————–

امتيں گلشن ہستی ميں ثمر چيدہ بھی ہيں
اور محروم ثمر بھی ہيں، خزاں ديدہ بھی ہيں
سينکڑوں نخل ہيں، کاہيدہ بھی، باليدہ بھی ہيں
سينکڑوں بطن چمن ميں ابھی پوشيدہ بھی ہيں

نخل اسلام نمونہ ہے برومندی کا
پھل ہے يہ سينکڑوں صديوں کی چمن بندی کا

ستایسواں بند

اگرچہ موجودہ مسلمان واقعی آج کل بہت پریشان ہیں لیکن مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے جس طرح پہلے زمانہ میں مختلف قوموں نے اسلام لانے کے بعد دین کی خدمت کی ہے آئندہ بھی ایسا ہی ہوگا۔

—————————–

پاک ہے گرد وطن سے سر داماں تيرا
تو وہ يوسف ہے کہ ہر مصر ہے کنعاں تيرا
قافلہ ہو نہ سکے گا کبھی ويراں تيرا
غير يک بانگ درا کچھ نہيں ساماں تيرا

نخل شمع استي و درشعلہ دود ريشہ تو
عاقبت سوز بود سايہ انديشہ تو

اٹھائیسواں بند

اے مسلمانو! اس نقتہ کو ذہن نشین کر لو کہ مسلمان قوم کسی خاص وطن یا نسل سے وابستہ نہیں ہے اور نہ کسی خاص ملک تک محدود ہے کہ اگر وہ ملک تباہ ہوجائے تو قوم تباہ ہو جائے گی۔ یہ ساری دنیا مسلمانوں کا وطن ہے اس لئے اسلام کبھی دنیا سے مٹ نہیں سکتا۔

اے مسلمان تو دنیا کے لیے شمع کی مانند ہے، شمع کے شعلوں میں تیری ہی حرارت کارفرما ہے تو شمع کی بتی کی مانند ہے اگر تو نہ ہو تو شمع جل نہیں سکتی یعنی اگر مسلمان قوم دنیا سے مٹ جائے تو یہ دنیا ہی مٹ جائے گی۔ تیرا اندیشہ عاقبت سوز ہے یعنی نتائج سے بے پرواہ ہے اس لیے تو دنیا میں ضرور کامیاب ہو گا۔

—————————–

تو نہ مٹ جائے گا ايران کے مٹ جانے سے
نشہ مے کو تعلق نہيں پيمانے سے
ہے عياں يورش تاتار کے افسانے سے
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے

کشتی حق کا زمانے ميں سہارا تو ہے
عصر نو رات ہے، دھندلا سا ستارا تو ہے

انتیسواں بند

جب صورت حال یہ ہے کہ تیرا وجود اس دنیا کی بقا کے لئے ضروری ہے تو اطمینان رکھ۔ ایران کے مٹ جانے سے تو نہیں مل سکتا۔نشہ شراب میں ہوتا ہے نہ کہ پیمانے میں۔ اسی طرح مسلمان تو ساری دنیا کے قیام کا باعث ہیں۔ اسلام کا وجود ایران پر منحصر نہیں ہے۔ اگر تجھے تاریخی شہادت درکار ہو تو سلطنت عباسیہ کی تاریخ کا مطالعہ کر۔ کیا بغداد کے تباہ ہو جانے سے اسلام ختم ہوگیا؟ ہرگز نہیں۔ جن ترکوں نے سلطنت عباسیہ کا چراغ گل کیا تھا، وہی ترک مسلمان ہو کر اسلام کے محافظ بن گئے۔تو اسلام کی کشتی کا پاسبان ہے اس لیے موجودہ زمانے کی اقوام بھی تجھ سے ہی روشنی حاصل کریں گی۔

—————————–

ہے جو ہنگامہ بپا يورش بلغاری کا
غافلوں کے ليے پيغام ہے بيداری کا
تو سمجھتا ہے يہ ساماں ہے دل آزاری کا
امتحاں ہے ترے ايثار کا، خود داری کا

کيوں ہراساں ہے صہيل فرس اعدا سے
نور حق بجھ نہ سکے گا نفس اعدا سے

تیسواں بند

اگر آج( یعنی ١٩١٣-١٤ء کی بات ہے جب) ریاست ہاے بلقان نے ترکی پر چاروں طرف سے حملہ کر دیا تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ترک ختم ہو جائیں گے یا مسلمان دنیا سے مر جائیں گے بلکہ یہ اس لیے ہے کہ مشیر ایزدی اس وقت تیرے ایثار اور حوصلہ کا امتحان لینا چاہتی ہے۔ تو دشمنوں کی کثرت سے کیوں خوفزدہ ہے؟ یقین رکھ وہ اسلام کو فنا نہیں کرسکتے۔

—————————–

چشم اقوام سے مخفی ہے حقيقت تيری
ہے ابھی محفل ہستی کو ضرورت تيری
زندہ رکھتی ہے زمانے کو حرارت تيری
کوکب قسمت امکاں ہے خلافت تيری

وقت فرصت ہے کہاں، کام ابھی باقی ہے
نور توحيد کا اتمام ابھی باقی ہے

اکتیسواں بند

اے مسلمان! دنیا کی وہ قومیں جو تجھے مٹانا چاہتی ہیں اس حقیقت سے نا آشنا ہیں کہ ابھی دنیا کو تیرے ضرورت باقی ہے۔یہ دنیا محض تیرے وجود سے قائم ہے دنیا میں اسلام کی حکومت مقدر ہوچکی ہے۔ تقدیر بدل نہیں سکتی ، تو اٹھ اور دنیا کو توحید کا پیغام سنا دے۔

—————————–

مثل بو قيد ہے غنچے ميں، پريشاں ہوجا
رخت بردوش ہوائے چمنستاں ہوجا
ہے تنک مايہ تو ذرے سے بياباں ہوجا
نغمہ موج سے ہنگامۂ طوفاں ہوجا

قوت عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دہر ميں اسم محمد سے اجالا کر دے

بتیسواں بند

اے مسلمانو! گھروں سے نکلو اور اسلام کا پیغام لے کر دنیا میں پھیل جاؤ۔ اسلام میں وہ خوبی ہے کہ تمہاری کمزوری طاقت میں اور تماری قلت کثرت میں تبدیل ہوسکتی ہے۔ تم سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق میں فنا ہو جاؤ اور یقین رکھو کہ اس عشق کی بدولت تمہارے اندر یہ طاقت پیدا ہوجائے گی کہ تم دنیا میں سرور دو عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا نام بلند کرو گے۔

—————————–

ہو نہ يہ پھول تو بلبل کا ترنم بھی نہ ہو
چمن دہر ميں کليوں کا تبسم بھی نہ ہو
يہ نہ ساقی ہو تو پھرمے بھی نہ ہو، خم بھی نہ ہو
بزم توحيد بھی دنيا ميں نہ ہو، تم بھی نہ ہو

خيمہ افلاک کا استادہ اسی نام سے ہے
نبض ہستی تپش آمادہ اسی نام سے ہے

تینتیسواں بند

اے مسلمانو! یاد رکھو کہ اگر حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس نہ ہو تو دنیا تیرہ و تار ہو جائے۔ دنیا کی ساری رونق آپ ہی کے دم سے ہے۔ اگر آپ نہ ہوں تو پھر دنیا میں کوئی توحید کا نام لینے والا نہ رہے۔ نہ توحید رہے اور نہ تم باقی رہو۔ بلا شبہ یہ کائنات حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ہی کے نام کی برکت سے قائم ہے اور اسلامی ہستی کی نبض میں آپ ہی کی بدولت حرکت اور زندگی نظر آتی ہے۔

—————————–

دشت ميں، دامن کہسار ميں، ميدان ميں ہے
بحر ميں، موج کی آغوش ميں، طوفان ميں ہے
چين کے شہر، مراقش کے بيابان ميں ہے
اور پوشيدہ مسلمان کے ايمان ميں ہے

چشم اقوام يہ نظارہ ابد تک ديکھے
رفعت شان ‘رفعنالک ذکرک’ ديکھے

چونتیسواں بند

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نامی جنگلوں، پہاڑوں، میدانوں، شہروں اور گاؤں میں غرضیکہ ہر جگہ لوگوں کی زبان پر ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہر ایک مسلمان کے دل میں پوشیدہ ہے اور انشاءاللہ آپ کا نام قیامت تک اسی طرح بلند رہے گا کیونکہ خود اللہ نے واضح فرمایا ہے کہ اے رسولﷺ ہم نے آپ کا نام ساری دنیا میں بلند کر دیا۔

—————————–

مردم چشم زميں يعني وہ کالی دنيا
وہ تمھارے شہدا پالنے والی دنيا
گرمی مہر کی پروردہ ہلالی دنيا
عشق والے جسے کہتے ہيں بلالی دنيا

تپش اندوز ہے اس نام سے پارے کی طرح
غوطہ زن نور ميں ہے آنکھ کے تارے کی طرح

پینتیسواں بند

مثالا دیکھ لو کہ براعظم افریقہ جہاں سیاہ فام لوگ بستے ہیں جیسے وہاں کے باشندوں کی سیاہ رنگت کی بنا پر چشم زمین کی پتلی سے تعبیر کرسکتے ہیں جس براعظم میں نجاسی وائی ملک حبشہ نے ابتدائی دور کے مسلمانوں کو اپنے ہاں پناہ دی تھی، جہاں شدید گرمی پڑتی ہے جہاں مصر سے مراکش تک سب مسلمان ہی مسلمان آباد ہیں جسے محبان اسلام حضرت بلال کی دنیا بھی کہتے ہیں کیونکہ وہ حبشی الاصل تھے۔ یہ سرزمین تبلیغ اسلام کی بدولت روز بروز نور اسلام سے منور ہوتی جاتی ہے اور اس تاریک براعظم کے درد انگیز گوشوں میں سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا نام مساجد کے میناروں سے بلند ہو رہا ہے۔

—————————–

عقل ہے تيری سپر، عشق ہے شمشير تری
مرے درويش! خلافت ہے جہاں گير تری
ماسوی اللہ کے ليے آگ ہے تکبير تری
تو مسلماں ہو تو تقدير ہے تدبير تری

کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تيرے ہيں
يہ جہاں چيز ہے کيا، لوح و قلم تيرے ہيں

آخری بند

آخری بند میں اللہ تعالی مسلمانوں سے یوں خطاب فرماتا ہے کہ اے مسلمان! ہم نے تجھے دونوں خوبیاں عطا کردی ہیں۔ تیرے پاس عشق کی طاقت بھی ہے اور عقل کی دولت بھی ہے۔ تو عشق کو اپنی تلوار بنا لے یعنی ہمارے محبوب کا نام دنیا میں بلند کر اور اس راہ میں جو مشکلات آئیں ان کو اپنی عقل سے دور کر۔ یعنی عقل سے ڈھال کا کام لے۔اگر تو سچے معنوں میں مسلمان ہو جائے، ہمارا مطیع ہو جائے تو پھر تیری تدبیر ہماری مشیت سے ہم آہنگ ہو جائے گی، یعنی ہم تیری آرزو پوری کریں گے اور اگر تو ہمارے محبوب سے وفا کرے گا یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرے گا تو اس دنیا کی حقیقت ہی کیا ہے ہم تجھے ساری کائنات کا مالک بنا دیں گے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button