علامہ اقبال شاعریمحراب گل افغان کے افکار

وہي جواں ہے قبيلے کي آنکھ کا تارا

وہی جواں ہے قبیلے کی آنکھ کا تارا
شباب جس کا ہے بے داغ، ضرب ہے کاری

معانی: آنکھ کا تارا ۔ پیارا، ہر دلعزیز ۔ شباب: جوانی ۔ بے داغ: ہر گناہ سے پاک ۔ ضرب : چوٹ ۔ کاری: سخت ۔
مطلب: محراب گل اپنے قبیلے کے جوانوں کو خطاب کرتے ہوئے کہتا ہے کہ تم میں سے وہی جوان قبیلے کے ہر شخص کے لیے پیارا اور ہر شخص میں دلعزیز ہو سکتا ہے جس کی جوانی ہر گناہ اور عیب سے پاک ہو ۔ جو متقی ہو ۔ ایسے شخص کا ہر وار جو وہ باطل پر لگاتا ہے ہر چوب جو وہ شیطان پر مارتا ہے شدید اور کارگر و نتیجہ خیز ہوتی ہے ۔ عہد حاضر بے حیا ہے ۔ عہد حاضر کی تعلیم بے حیائی سکھاتی ہے ۔ خدا تمہیں اس بے حیائی سے بچائے اور ایک صحیح مرد مومن کے بیٹے کی طرح رکھے یعنی پا ک باز اور قوت و شجاعت والا ۔

اگر ہو جنگ تو شیرانِ غاب سے بڑھ کر
اگر ہو صلح تو رعنا غزالِ تاتاری

معانی : شیران غاب: جنگل کے شیر ۔ رعنا: خوبصورت ۔ غزال: ہرن ۔ تاتای: ملک تاتار کے ، جہاں علاقہ ختن ہے جہاں کے ہرنوں میں مشک ہوتی ہے ۔
مطلب: پاکباز مسلم نوجوان کی خصوصیات یہ ہیں کہ میدان جنگ ہو تو دشمن پر جنگل کے شیر کی طرح جھپٹتا ہے اور اگر صلح اور امن کا زمانہ ہو تو ملک ختن کے اس خوبصورت ہرن کی طرح ہوتا ہے جس کی ناف میں مشک پیدا ہو جاتی ہے اور جس کی خوشبو سے ساری فضا مہک جاتی ہے ۔ مراد ہے وہ امن کے زمانے میں دوست دشمن سب کے لیے امن کا پیغامبر اور دل خوش کرنے والا ہوتا ہے ۔

عجب نہیں ہے اگر اس کا سوز ہے ہمہ سوز
کہ نیستاں کے لیے ہے بس ایک چنگاری

معانی: سوز: آگ، حرارت ۔ ہمہ سوز: سب کو جلانے والی ۔ نیستاں : سرکنڈوں کا جنگل ۔ بس ہے: کافی ہے ۔
مطلب: جس طرح سر کنڈوں کے جنگل کو جلانے کے لیے آگ کی ایک چنگاری کافی ہوتی ہے اسی طرح باطل، شرک، کفر ، بے ایمانی ، بے حیائی وغیرہ کے جنگل کو جلانے کے لیے اس کے ایمان کی حرارت کی ایک چنگاری کافی ہوتی ہے یا اس کا یہ مطلب ہے کہ اگر اسکے دل کی تپش دوسروں میں بھی تپش پیدا کر دے تو حیران نہیں ہونا چاہیے کیونکہ سرکنڈوں کے جنگل کو جلانے کے لیے ایک چنگاری کافی ہوتی ہے ۔

خدا نے اس کو دیا ہے شکوہِ سلطانی
کہ اس کے فقر میں ہے حیدری و کرّاری

معانی: شکوہ سلطانی: شاہی ہیبت، وجلال ۔ فقر: دروییہ ۔ حیدری و کراری: حضرت علی جیسی ہمت ، دبدہ اور فتوحات حاصل کرنے کی صفات ۔
مطلب: ایسا جوان جو مغربی اثرات سے آزاد اور اسلام کی شراب میں سرمست ہے وہ اپنی ہمت، دبدبہ درویشی اور دشمن پر حملہ کے اعتبار سے حضرت علی کی صفات رکھنے والا ہے ۔ اگرچہ وہ درویش کیوں نہ نظر آتا ہو اور اس کے پاس دنیا کی دولت اور زینت بھی نہ ہو ۔ لیکن وہ بادشاہوں سے بھی زیادہ شکوہ اور دبدبہ کا مالک ہے ۔ بادشاہ اور اس کا تحت اس کے بوریائے فقر کے جلال سے لرزتا ہے ۔

نگاہِ کم سے نہ دیکھ اس کی بے کلاہی کو
یہ بے کلاہ ہے سرمایہَ کلہ داری

معانی: بے کلاہی: سر پر ٹوپی نہ ہونا، دولت کا اور دنیا کا سرمایہ نہ ہونا ۔ کلہ داری: تاجداری ۔ سرمایہ: دولت ۔
مطلب : اگرچہ ایسا جوان جو پاک باز مومن کی حیثیت رکھتا ہے جس کی درویشی میں اللہ کے شیروں کے خوشبو ہے ۔ بہ ظاہر دنیاوی دولت اور مرتبہ نہیں رکھتا لیکن اس کی یہی بے دولتی دوسروں کو دولت مند بنانے اور خود ننگے سر رہ کر دوسروں کے سروں پر تاج رکھنے کے لیے کافی ہے ۔ اس کی درویشی سے غریب بے نیازی سیکھ کر امیر سے دولت مند ہو جاتا ہے کیونکہ وہ دل کا غنی بن جاتا ہے ۔ اور سلطانوں کا تخت و تاج اس کی دعاؤں اور برکت کی وجہ سے سلامت رہتا ہے ۔ دیکھنے میں وہ دنیا کی دولت سے محروم ہوتا ہے لیکن حقیقت میں دنیا کی دولت اس کے قدم چوم رہی ہوتی ہے ۔ اس کی ایک نگاہ ذرے کو آفتاب بنا سکتی ہے ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button