ابي سينيا – 1935 18 اگست
یورپ کے کرگسوں کو نہیں ہے ابھی خبر
ہے کتنی زہر ناک ابی سینیا کی لاش
ہونے کو ہے یہ مردہَ دیرینہ قاش قاش
معانی: ابی سینیا: یہ شمالی افریقہ کا ایک ملک ہے جس کا جدید نام ایتھوپیا اور قدیم نام حبشہ ہے ۔ کرگس: گدھ ۔ زہرناک: زہر بھری ۔ مردہَ دیرینہ: پرانا مردہ ۔ قاش قاش: ٹکڑے ٹکڑے ۔
مطلب: مسلمانوں نے اس احسان کے بدلے میں کہ ابتدائی زمانے میں ہجرت کر کے حبشہ پہنچنے والے مسلمانوں کو حبشہ کے بادشاہ نے پناہ دی تھی اور ان کی حفاظت کی تھی ۔ حبشہ پر اپنی چودہ سو سالہ تاریخ میں حملہ نہیں کیا حالانکہ انھوں نے شمالی افریقہ کے سارے ملکوں کو ایک سر سے لے کر دوسرے سرے تک فتح کر لیا لیکن 1935 میں اس وقت کے اٹلی کے آمر مطلق مسولینی نے حبشہ پر حملہ کر دیا حالانکہ وہ ایک عیسائی ملک تھا اور بادشاہ بھی وہاں کا عیسائی تھا ۔ یہ بات اقبال کو سخت ناگوار گزری جس سے متاثر ہو کر انھوں نے ابی سیناکے عنوان سے یہ نظم لکھی اور اس پہلے شعر میں کہا کہ یورپ کے گدھو ں کو ابھی تک یہ خبر نہیں ہے کہ جس ابی سینیا کی لاش کا گوشت کھا کر وہ اپنا پیٹ بھرنا چاہتے ہیں وہ لاش کتنی زہر سے بھری ہوئی ہے ۔ یہ سچ ہے کہ مسولینی کے حملے سے ابی سینیا کا ملک فتح ہو کر ایک مردہ لاش کی طرح ہو جائے گا اور یہ دنیا کا سب سے پرانی بادشاہت رکھنے والا ملک ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جائے گا لیکن اس کے گوشت کے زہر سے یورپ کے گدھ بھی نہیں بچیں گے ۔ چنانچہ بعد کے واقعات بتاتے ہیں کہ دوسری جنگ عظیم میں اٹلی اور مسولینی کا برا حال ہوا ۔ مسولینی کو تو خودکشی کرنا پڑی لیکن ابی سینیا جوں کا توں قائم ہے اگرچہ اس میں سے پرانی بادشاہت ختم ہو چکی ہے اور جمہوری طرز کی حکومت آ گئی ہے ۔
تہذیب کا کمال، شرافت کا ہے زوال
غارت گری جہاں میں ہے اقوام کی معاش
ہر گُرگ کو ہے برّہَ معصوم کی تلاش
معانی: غارت گری: لوٹ مار ۔ معاش: روزی ۔ گرگ: بھیڑیا ۔ برہَ معصوم: معصوم بھیڑ بچہ ۔
مطلب: یورپ والوں کا صدیوں سے یہ طریقہ رہا ہے کہ وہ دوسرے کمزور ملکوں کو فتح کر کے وہاں کے لوگوں کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیتے ہیں اور وہاں کے مال اور مادی وسائل کو اپنے لیے استعمال کر کے اپنی قوم کی روزی کا ذریعہ بناتے ہیں ۔ ظاہر میں تو یہ یورپی قو میں یہ کہتی ہیں کہ ہماری تہذیب عروج پر ہے اس لیے ہم دوسرے ممالک کو فتح کر کے وہاں اپنی تہذیب لے جاتے ہیں تا کہ وہ لوگ بھی مہذب ہو جائیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کے پردے میں وہ کمزور قوموں کو لوٹتے ہیں اس لیے ان کی تہذیب کو شرافت کا کمال نہیں زوال کہنا چاہیے ۔ ان میں سے ہر قوم کی مثال ایک ظالم بھیڑیے کی مانند ہے جو کسی نہ کسی بے گناہ بھیڑ کے بچے کو کھا جانے کی تلاش میں رہتا ہے ۔ یہی کام مسولینی نے ظالم بھیڑیے کی طرح ابی سینیا کی معصوم بھیڑ کے ساتھ کیا ہے ۔
اے وائے آبروئے کلیسا کا آئنہ
روما نے کر دیا سرِ بازار پاش پاش
پیرِ کلیسیا! یہ حقیقت ہے دل خراش
معانی: اے وائے: افسوس ہے ۔ آبروئے کلیسیا کا آئنہ: گرجا یا عیسائیت کی عزت کا آئینہ ۔ روما: ملک روم یا اٹلی ۔ پاش پاش: ٹکڑے ٹکڑے ۔ پیر کلیسا: گرجے کا بزرگ، پاپائے روم ۔ دل خراش: دل میں زخم کرنے والی ۔
مطلب: افسوس تو اس بات پر ہے کہ مسلمانوں نے تو صدیوں کے عروج میں ابی سینیا کو چھیڑا تک نہیں لیکن خود عیسائیوں نے اس ملک پر جو کہ عیسائی ملک ہے پر حملہ کر کے عیسائیت کی عزت کے شیشے کو سرعام ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ہے ۔ اے عیسائیوں کے سربراہ یہ حقیقت دلوں کو زخمی کر دینے والی ہے لیکن اس سچائی نے تیرے دل کو نہ جانے چور چور کیوں نہ کیا اور تو نے مسولینی کو حبشہ پر حملہ کرنے سے منع کیوں نہ کیا ۔