مدنيت اسلام
بتاؤں تجھ کو مسلماں کی زندگی کیا ہے
یہ ہے نہایتِ اندیشہ و کمالِ جنوں
معانی: مدنیت اسلام: تمدن جو تہذیب و ثقافت کا آئینہ دار ہوتا ہے ۔ نہایت اندیشہ: غور و فکر کی انتہا ۔ کمالِ جنوں : عشق کا کمال ۔
مطلب: یاد رکھو مسلمان وہ ہے جس کی زندگی کے دو بنیادی اور بڑے جوہر ہیں ۔ پہلا جوہر عقل کا ہے جو اس میں درجہ کمال تک ہوتی ہے اور دوسرا جوہر عشق کا ہے وہ بھی اس میں کمال کی اس حد تک ہوتا ہے کہ ہم اسے جنوں کہہ سکتے ہیں ۔ مسلمان عقل اور عشق کے ان اعلیٰ و ارفع کمالات کا مجموعہ ہوتا ہے ۔
طلوع ہے صفتِ آفتاب اس کا غروب
یگانہ اور مثالِ زمانہ گوناگوں
معانی: یگانہ: یکتا ۔ گوناگوں : کئی طرح کا ۔
مطلب: مسلمان ایک بے مثل و بے مثال شخص ہوتا ہے ۔ زمانہ کی طرح رنگارنگ یعنی زمانے کے مطابق خود کو پورا اتارکر مگر اسلام کو نہ چھوڑتے ہوئے اپنی زندگی بسر کرتا ہے ۔ اس کا جینا مرنا ، اس کا عروج و زوال اس کا زندگی میں کم و بیش ہونا برابر ہوتا ہے ۔ جس طرح آٖفتاب ادھر غروب ہوتا ہے ادھر طلوع ہو جاتا ہے اسی طرح مسلمان بھی ادھر مرتا ہے ادھر عالم برزخ میں پھر نکل آتا ہے ۔ ادھر کم ہو گیا تو دوسرے لمحے اس کمی کو پورا کر لیتا ہے ۔ اس کا غروب و طلوع برابر ہے ۔
نہ اس میں عصرِ رواں کی حیا سے بیزاری
نہ اس میں عہدِ کہن کے فسانہ و افسوں
معانی: بیزاری: پریشانی ۔ عہد کہن: پرانا زمانہ ۔ فسانہ و افسوں : جھوٹی کہانیاں اور جادو وغیرہ ۔
مطلب: مسلمان کی مدنیت میں دور حاضر کی طرح حیا سے بیزاری نہیں ہے ۔ بلکہ اس کے نزدیک تو حیا نصف ایمان ہے ۔ حیا ایک مسلمان خصوصاً مسلمان عورت کا بنیادی جوہر ہے ۔ حیا اور ایمان کے اس تعلق کی بنا پر مسلمان کی زندگی کے ہر شعبہ میں حیا کارفرما ہوتی ہے اور نہ ہی مسلمان اپنی زندگی میں پرانی اساطیری کہانیوں اور افسانوں پر اعتقاد رکھتا ہے ۔
حقائق ابدی پر اساس ہے اس کی
یہ زندگی ہے ، نہیں ہے طلسمِ افلاطوں
معانی: حقائق ابدی: مستقل حقیقتیں ۔ اساس: بنیاد ۔ طلسم: جادو ۔
مطلب: مسلمان کے تمدن و ثقافت اور تہذیب کی بنیاد ان حقیقتوں پر ہے جو کبھی نہیں بدلتیں ۔ اس میں زندگی کو ایک حقیقت سمجھا جاتا ہے نہ کہ یونانی حکیم افلاطون کی طرح اسے وہم و خیال تصور کیا جاتا ہے ۔ جو ایسا سوچے گا وہ دنیا سے گریز اور زندگی سے نفرت کرے گا لیکن جو زندگی کو حقیقت سمجھے گا وہ اسے ذمہ داری سے گزارے گا ۔
عناصر اس کے ہیں روح القدس کا ذوقِ جمال
عجم کا حُسنِ طبیعت، عرب کا سوزِ دروں
معانی: ذوقِ جمال: خوبصورتی کی پرکھ رکھنا ۔ حُسنِ طبیعت: طبیعت کی خوبی ۔ سوزِ دروں : سینے کا سوز، ایمان ۔
مطلب: اسلامی مدنیت کے اجزائے ترکیبی تین ہیں ۔ ایک جز میں حضرت جبرئیل کے ذوق کا حسن پوشیدہ ہے ۔ دوسرے جزو میں عرب کے علاوہ جو قو میں ہیں خصوصاً اہل فارس کی طبیعت کا حسن موجود ہے اور تیسرے جز میں عربوں کا سوز دروں شامل ہے ۔ مدنیت اسلام جبرئیل کی روح کی طرح پاکیزہ بھی ہے ۔ اہل فارس کے طباءع کی طرح حسین بھی ہے اور عربوں کے دلوں کی طرح پرسوز و پرجوش بھی ہے ۔