علامہ اقبال شاعریملا زادہ ضیغم لولابی کشمیری کا بیاض

رندوں کو بھي معلوم ہيں صوفی کے کمالات

(Armaghan-e-Hijaz-27)

Rindon Ko Bhi Maloom Hain Sufi Ke Kamalat

(رندوں کو بھی معلوم ہیں صوفی کے کمالات)

The dissolute know the Sufi’s accomplishments

رندوں کو بھی معلوم ہیں صوفی کے کمالات
ہر چند کہ مشہور نہیں ان کے کرامات

معانی: رند: شرابی، دنیادار، آزاد منش ۔ کمالات: کمال کی جمع، کسی فن یا ہنر میں کمال حاصل کرنا ۔ کرامات : کرامت کی جمع، کسی بزرگ سے ایسے فعل کا سرزد ہونا جو فطرت اور عقل سے ماورا ہو ۔
مطلب: وہ رند جو صوفی کی ضد ہے اور جو آزاد منش اور شرابی ہے وہ بھی جانتا ہے کہ ایک صوفی اپنے اندر فن تصوف کے کون کون سے کمالات رکھتا ہے چاہے وہ اس کی کرامت سے واقف نہ بھی ہو ۔ اور اسے یہ معلوم نہ بھی ہو کہ اس عقل سے ماورا اور فطرت سے فوق کون کون سے فعل سرزد ہوتے ہیں ۔

————————-

خود گیری و خودداری و گلبانگ اَنا الحق
 آزاد ہو سالک تو ہیں یہ اس کے مقامات

معانی: خودگیر: ہر بات میں خود کفیل ۔ خودداری: اپنی عزت خود بحال رکھنے کا عمل، متانت، سنجیدگی، عزت نفس ۔ گلبانگ: خوش گوار آواز ۔ انا الحق: میں حق ہوں ، ایک صوفی منصور نے یہ کہا تھا ۔ سالک: سلوک طے کرنے والا، درویش، ولی ۔ مقامات: مقام کی جمع، تصوف کے راستے کی منزلیں ۔
مطلب: بے شک کوئی صوفی اپنے اندر تصوف و ولایت کے فن کے بہت کمالات رکھتا ہو لیکن اگر وہ غلام ہے تو یہ کمالات بے فائدہ ہیں کیونکہ غلام ہوتے ہوئے اس کا اپنا وجود ، اس کا اپنا ضمیر اور اس کی اپنی مرضی اس کے آقا کی ہو جاتی ہے اگر سالک آزاد ہے تو کمالات کرامات کے نہ ہوتے ہوئے وہ کسی کا محتاج نہیں ہو گا ۔ ہر ایک سے بے نیاز صرف اللہ کا نیاز مند ہو گا ۔ عزت نفس کا حامل ہو گا ۔ کسی کے آگے نہ جھکے گا، نہ کسی کے آگے دست سوال دراز کرے گا ۔ نہ دوسروں کی روزی پر پلے گا ۔ وہ میں حق ہوں کا نعرہ بلند کرے گا اور پکارے گا کہ میرا وجود فنا ہو کر حق باقی رہ گیا ہے ۔ یہ وہ نعرہ تھا جو منصور نامی ایک صوفی نے اس وقت لگایا تھا جب وہ فنا اور بقا کے اس مقام پر پہنچا تھا جہاں وہ خود فانی ہو کر بحق باقی رہ گیا تھا ۔ سالک کے راستے کی منزلوں یا مقامات میں سے ملا ضیغم کی زبان سے علامہ نے صرف تین کا ذکر کیا ہے ۔ اس کے علاوہ اور مقامات بھی ہوتے ہیں ۔

————————-

محکوم ہو سالک تو یہی اس کا ہمہ اُوست
خود مُردہ و خود مرقد و خود مرگِ مفاجات

معانی: محکوم: غلام، سالک: سلوک یا تصوف کی منزلیں طے کرنے والا، ولی ، درویش ۔ ہمہ اوست: سب کچھ وہی ہے ۔ مرقد: قبر ۔ مرگ مفاجات: ناگہانی موت ۔ مردہ: مرا ہوا، بے حس ۔
مطلب: ہمہ اوست کا عقیدہ کہ سب کچھ وہی ہے مراد ہے سب ذرات کائنات اوراشیائے کائنات میں اللہ کی صفات جاری و ساری ہیں اور اس عمل کی بنا پر ان کو وجود دکھائی دیتا ہے اگر تو یہ آزاد کا عقیدہ ہے تو یہ اس کے اور مخلوق خدا کے لیے فائدہ والا ہے ۔ اس عقیدے کی بنا پر لوگ خود کو مقام فنا پر سمجھیں گے اور اللہ کو باقی خیال کریں گے جس کی بنا پر وہ سوائے اللہ کے کسی کے آگے نہیں جھکیں گے کسی کے آگے دست سوال دراز نہیں کریں گے ۔ کسی کے محتاج نہیں ہوں گے لیکن یہی عقیدہ اگر کسی غلام قوم کے صوفی کا ہو تو یہ اسے اس طرح کی خودی ، خودداری اور عزت نفس ختم ہو جاتی ہے اور وہ ایک ایسے شخص کی مانند ہو جاتا ہے جس پر ناگہانی موت آئی ہے وہ خود اپنی موت کا سبب بن جاتا ہے ۔ یہ موت اس کے جسم کی میت نہیں ہوتی اس کی شخصیت کی موت ہوتی ہے ۔ اس موت کے بعد یہی شخصیت مردہ اس کی قبر بن جاتی ہے اور وہ اس میں مردوں کی سی بے بس زندگی گزارنے پر مجبور ہو جاتا ہے ۔

————————-

Translitation

Rindon Ko Bhi Maloom Hain Sufi Ke Kamalaat
Har Chand Ke Mashoor Nahin In Ke Karamaat

The dissolute know the Sufi’s accomplishments,
though their miracles are not so well‐known.

Khud Geeri-O-Khudari-O-Gulbang-E-‘Anl-Ul-Haq’
Azad Ho Salik  To Hain Ye Uss Ke Maqamaat

Self‐enrichment, self‐respect and the cry of Ana‐al‐Haq—
these are the states of the wayfarer, if he be free;

Mehkoom  Ho Salik To Yehi Iss Ka ‘Hama Ost’
Khud Murda Wa Khud Marqad-O-Khud Marg-E-Mafajaat!

But if slave, then it all becomes his all is He;
he is dead body, grave and sudden death, all in one.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button