با ل جبر یل - منظو ما ت

ملا اور بہشت

میں بھی حاضر تھا وہاں ضبطِ سخن کر نہ سکا
حق سے جب حضرتِ مُلّا کو مِلا حکمِ بہشت

مطلب: ضبطِ سخن: خموشی ۔
مطلب: ایک عرصے سے ملاؤں نے کج بحثی، منافقت اور تفرقہ پردازی کا جو بازار گرم کر رکھا ہے اسی کے سبب بے شمار لوگوں خصوصیت کے ساتھ نوجوان نسل میں دین و مذہب کے ساتھ وہ لگاوَ نہیں کہ جو ہونا چاہیے ۔ اقبال عمر بھر اپنے افکار کے ذریعے ملاؤں کے اس کردار کے خلاف جہاد کرتے رہے ۔ یہاں انھوں نے ملاؤں کے کردار کو جس خوبصورت انداز میں پینٹ کیا ہے وہ انتہائی لائق ستائش ہے ۔ چنانچہ اس شعر میں وہ آغاز اس طرح کرتے ہیں کہ اس وقت ملا کو بہشت میں بھیجنے کے لیے باری تعالیٰ نے حکم جاری کیا تو اتفاق سے میں بھی وہیں موجود تھا ۔ چنانچہ ملا کی پذیرائی کے اس عمل کو دیکھ کر میری قوت برداشت جواب دے گئی ۔

عرض کی میں نے الہٰی مری تقصیر معاف
خوش نہ آئیں گے اسے حور و شراب و لبِ کشت

معانی: تقصیر: غلطی ۔ لب کشت: باغ کا گوشہ ۔
مطلب: چنانچہ حق تعالیٰ سے میں نے گزارش کی کہ اگر میری تقصیر معاف کر دے تو تجھ سے یہ استفسار کرنے کی جسارت کروں کہ تو جو اسے بہشت میں بھیج رہا ہے تو یہ بھی سوچا کہ اس جیسے شخص کو وہاں کی حوریں ، شراب طہورہ اور سبزہ گل کیسے راس آئیں گے اور یہ چیزیں کیسے اس کے اطمینان قلب کا باعث ہو سکیں گی کہ وہ تو اپنی فطرت کے لحاظ سے لڑائی جھگڑے کا قائل رہا ہے ۔

نہیں فردوس مقامِ جدل و قال و اقوال
بحث و تکرار اس اللہ کے بندے کی سرشت

معانی: جدل: جھگڑا ۔ قال و اقوال: باتوں کی زیادتی ۔ سرشت: عادت ۔
مطلب: اس شعر میں بھی کم و بیش انہی خیالات کا اظہار کیا گیا ہے جو اس سے پہلے کے شعر میں موجود ہیں یعنی کہ کج بحثی اور لڑائی جھگڑا تو تیرے اس بندے کی سرشت میں شامل ہے جب کہ بہشت میں اس جیسے مشغلوں کی گنجائش کہاں ہے ۔

ہے بدآموزیِ اقوام و مِلل کام اس کا
اور جنت میں نہ مسجد، نہ کلیسا، نہ کنشت

معانی: بدآموزی: بُری تعلیم ۔ اقوام و ملل: قوموں اور ملتوں کی جمع ۔ کلیسا: گرجا، عیسائیوں کی عبادت گاہ ۔
مطلب: قوموں اور ملتوں کو غلط راہ پر لگانا اور مختلف حیلے بہانوں سے ان میں پھوٹ ڈالنا تو ہمیشہ اس کی سرخوشی کا باعث ہوتا ہے جب کہ جنت میں تو نہ مسجدیں ہوں گی نہ گرجے اور نا ہی دوسری عبادت گاہیں ۔ جن کو یہ شخص جھگڑے کی بنیاد بناتا ہے ۔ اقبال نے یہی موضوع اپنے بے شمار اشعار میں چھیڑا ہے ۔

———————–

Transliteration

Mullah Aur Bahisht

Main Bhi Hazir Tha Wahan, Zabt-e-Sukhan Kar Na Saka
Haq Se Jab Hazrat-e-Mullah Ko Mila Hukm-e-Bahisht

Arz Ki Main Ne, Elahi! Meri Takseer Maaf
Khush Na Ayen Ge Isse Hoor-o-Sharab-o-Lab-e-Kisht

Nahin Fardous Maqam-e-Jadal-o-Qaal-o-Aqwal
Behas-o-Takrak Iss Allah Ke Bande Ki Sarisht

Hai Badamozi-e-Aqwam-o-Milal Kaam Iss Ka
Aur Jannat Mein Na Masjid, Na Kalisa, Na Kunisht!

————————–

HEAVEN AND THE PRIEST

Being present there, my impetuous tongue to silence I could not resign
When an order from God of admission on high came the way of that reverend divine;

I humbly addressed the Almighty: O Lord, Excuse this presumption of mine,
But he’ll never relish the virgins of heaven, The garden’s green borders, the wine!

For paradise isn’t place for a preacher to meddle and meddle and mangle,
And he, pious man—second nature to him is the need to dispute and to jangle;

His business has been to set folk by the ears and get nations and sects in a tangle:
Up there in the sky is no Mosque and no Church and no Temple—with whom will he wrangle?

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button