با ل جبر یل - منظو ما ت

پنچاب کے دہقان سے

بتا کیا تری زندگی کا ہے راز
ہزاروں برس سے ہے تو خاک باز

معانی: دہقان: کسان ۔ خاک باز: مٹی میں کھیلنے والا ۔
مطلب: اس نظم میں اقبال جہاں پنجاب کے دہقاں کی کیفیات اور ان کے مسائل کا ذکر کرتے ہیں وہاں وہ ان کو بیداری کا پیغام بھی دیتے ہیں ۔ نظم کے تمام اشعار میں علامہ اقبال پنجاب کے کسان سے براہ راست مخاطب ہیں ۔ اس کے اولین شعر میں وہ کسان سے استفسار کرتے ہیں کہ ہزارہا سال سے تو خاک چھان رہا ہے اور غذائی اجناس پیدا کر رہا ہے لیکن اتنا بتا دے کہ کیا تیری زندگی ہمیشہ اسی عمل تک محدود رہے گی ۔ نہ جانے تو اسی پر کیوں اکتفا کئے ہوئے ہے جب کہ تو زندگی کی تمام سہولتوں سے محروم ہے ۔

اسی خاک میں دب گئی تیری آگ
سحر کی اذاں ہو گئی، اب تو جاگ

مطلب: تجھ میں جوش و عمل کا جو جذبہ تھا کیا وہ اس مٹی کی نذر ہو گیا جس کو تو قابل کاشت بناتا ہے اب تو مایوسیوں کا اندھیرا دور ہو کر امید کی نئی کرنیں پھوٹ رہی ہیں ۔ دنیا بھر میں ہر ملک کے عوام اپنے حقوق کے حصول کی خاطر بیدار ہو کر استحصالی قوتوں کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں اب تیرے لیے بھی لازم ہے کہ خواب غفلت سے بیدار ہو کر اپنے حقوق کے لیے عملی جدوجہد کرے ۔

زمیں میں ہے گو خاکیوں کی برات
نہیں اس اندھیرے میں آبِ حیات

معانی: خاکیوں کی برات: آدمی کی قسمت ۔ آبِ حیات: ہمیشہ زندہ رکھنے والا پانی ۔
مطلب: ہر چند کہ دنیا کے تمام باشندوں کو پیٹ بھرنے کے لیے رزق ز میں سے ہی میسر آتا ہے اس لیے غذائی فصلوں کی کاشت ز میں میں ہی ہوتی ہے اس کے باوجود یہ فصلیں انسان کو ہمیشہ زندہ رکھنے کی اہل نہیں ہوتیں ۔ زندگی محض یہ تو نہیں کہ فصل پیدا ہو اور اس سے پیٹ بھر لیا ۔ زندگی کا مقصد تو اور بھی کچھ ہے ۔

زمانے میں جھوٹا ہے اس کا نگیں
جو اپنی خودی کو پرکھتا نہیں

معانی: نگیں : ہیرا ۔
مطلب: زندگی کا حقیقی مقصد یہ ہے کہ انسان اپنی خودی کو پہچانے ، اس کا تحفظ کرے او ر لمحہ بہ لمحہ اس کو جانچتا رہے ۔ اور جو شخص اس عمل سے بے بہرہ ہے اس کے بارے میں بس اسی قدر کہنا ہی کافی ہے کہ وہ حقیقتوں کے ادراک سے محروم ہے ۔

بتانِ شعوب و قبائل کو توڑ
رسومِ کہن کے سلاسل کو توڑ

معانی: شعوب: گروہ ۔ قبائل: قبیلے، خاندان ۔ سلاسل: سلسلے ۔
مطلب: افسوس کہ تو بیداری کے اس عہد میں بھی نسلوں ، قبیلوں اور فرقوں کے قدیم اور ازکار رفتہ زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے ۔ ان کی شکست و ریخت کے بغیر تیرا منزل مقصود تک پہنچنا ممکن نہیں ۔ اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ قدیم رسموں اور روایتوں کی زنجیروں کو بھی توڑ کر ان سے ہمیشہ کے لیے نجات حاصل کر لے ۔

یہی دینِ محکم، یہی فتحِ باب
کہ دنیا میں توحید ہو بے حجاب

معانی: دین محکم: دین کی پختگی ۔ فتح باب: فتح یابی ۔
مطلب: دنیا میں ا گر توحید کا سبق عام ہو جائے اور یہ جو مسلمانوں میں چھوٹے چھوٹے دھڑے، فرقے اور قبائل موجود ہیں اگر یہ سب متحد ہو کر ایک ہی ملت میں ڈھل جائیں تو یہاں دوسری قوموں پر برتری کی صورت نکل سکتی ہے ۔ اور اس طرح توحید کا قیام ساری دنیا تک پہنچ سکتا ہے کہ یہی پیغام سب کے لیے تمام علائق دنیوی سے نجات حاصل کرنے کا ذریعہ ہے ۔

بخاکِ بدن دانہَ دل فشاں
کہ ایں دانہ دارد زِ حاصل نشاں

مطلب: نظم کے اس آخری شعر میں اقبال پنجاب کے دہقان کو اسی کی زبان میں مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ بدن کی خاک میں دل کا دانہ ڈال کیونکہ یہ دانہ ملنے والے پھل کا نشان ہے ۔ جب تک انسان کے دل میں زندگی کے حقیقی نصب العین کے حصول کی تڑپ نہ پیدا ہو جائے اس وقت تک وہ ناقابل فراموش کارنامے سرانجام نہیں دے سکتا ۔ یہی تڑپ دراصل انسان کو خواب غفلت سے بیدار کرتی ہے ۔

————————

Transliteration

Bata Kya Teri Zindagi Ka Hai Raaz
Hazaron Baras Se Hai Tu Khakbaz

Issi Khak Mein Dab Gyi Teri Aag
Sehar Ki Azan Ho Gyi, Ab Tu Jaag!

Zameen Mein Hai Go Khakiyon Ke Barat
Nahin Iss Andhere Mein Aab-e-Hayat

Zamane Mein Jhoote Hai Uss Ka Nageen
Jo Apni Khudi Ko Parakhta Nahin

Butan-e-Shaub-o-Qabail Ko Torh
Rasoom-e-Kuhan Ke Salasil Ko Torh

Yehi Deen-e-Mohkam, Yehi Fateh-e-Baab
Ke Dunya Mein Touheed Ho Be-Hijab

Bakhak-e-Badan Dana-e-Dil Fashan
Ke Aeen Dana Dar Daz Hasil Nishan

————————–

What is this life of yours, tell me its mystery—
Trampled in dust is your ages‐old history!

Deep in that dust has been smothered your flame—
Wake, and hear dawn its high summons proclaim!

Creatures of dust from the soil may draw bread:
Not in that darkness is Lifeʹs river fed!

Base will his metal be held, who on earth
Puts not to trial his innermost worth!

Break all the idols of tribe and of caste,
Break the old customs that fetter men fast!

Here is true victory, here is faithʹs crown—
One creed and one world, division thrown down!

Cast on the soil of your clay the heartʹs seed:
Promise of harvest to come, is that seed!

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button