با ل جبر یل - منظو ما ت

فلسفی

بلند بال تھا لیکن نہ تھا جسور و غیور
حکیم سر محبت سے بے نصیب رہا

پھرا فضاؤں میں کرگس اگرچہ شاہیں وار
شکار زندہ کی لذت سے بے نصیب رہا

مطلب: بلند بال: اونچا اڑنے والا ۔ جسور: جسارت والا ۔
مطلب: اقبال کے نزدیک فلسفی کی تعریف یہ ہے کہ بظاہر وہ ذہنی طور پر تو بلند ہوتا ہے لیکن اس میں جرات و ہمت نہیں ہوتی بلکہ دیکھا جائے تو غیرت کا بھی فقدان ہوتا ہے ۔ فلسفی کے کردار کا تجزیہ کرتے ہوئے علامہ اس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ محبت کے جذبے سے نا آشنا ہوتا ہے اس لیے مذکورہ بالا صلاحیتوں سے محرومی فطری امر ہے ۔ اس کی مثال وہ شاہیں اور گدھ کے کردار کے حوالے سے دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ پرندے تو دونوں ہی ہیں اور فضاؤں میں اڑنے کا شرف بھی دونوں کو ہی حاصل ہے لیکن فطری سطح پر دونوں کی خصوصیات متضاد ہیں ۔ شاہیں کو زندہ پرندوں کا خود شکار کرتا ہے اس لیے کہ اس میں جرات و ہمت موجود ہے ۔ وہ غیرت مند بھی ہے کہ نہ مردہ گوشت کھاتا ہے نہ کسی کا مارا ہوا شکار ۔ اس کے برعکس گدھ اگرچہ ہر ممکن بلندی تک اڑنے کی صلاحیت تو رکھتا ہے لیکن جرات و ہمت دونوں صلاحیتوں سے محروم رہتا ہے اسی باعث وہ زندہ شکار کی صلاحیت بھی نہیں رکھتا بلکہ مردہ گوشت پر ہی اکتفا کرتا ہے ۔ علامہ اقبال کے نزدیک یہی کیفیت ایک فلسفی کی ہوتی ہے جو موخر الذکر پرندے سے منسوب کی گئی ہے ۔

———————–

Transliteration

Buland Baal Tha,Lekin Na Tha Jasoor-o-Ghayyur
Hakeem Sirr-e-Mohabbat Se Be-Naseeb Raha

He could fly high but he wasn’t daring and passionate,
The sage remained a stranger to the secret of Love.

Phira Fazaon Mein Kargas Agarche Shaheen-War
Shakar-e-Zinda Ki Lazzat Se Be-Naseeb Raha

The vulture roamed around the air like an eagle,
But could not get acquainted with the taste of a fresh prey.

————————–

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button