عالم برزخ
(Armaghan-e-Hijaz-04)
Alam-e-Barzakh
(عالم برزخ)
The State of Barzakh
کیا شے ہے کس امروز کا فردا ہے قیامت
اے میرے شبستانِ کہن! کیا ہے قیامت
معانی: شے: چیز ۔ امروز: آج ۔ فردا: آنے والی کل ۔ قیامت: وہ دن جب دنیا فنا ہو جائے گی اور تمام مردے اپنی قبروں سے حساب کتاب دینے کے لیے نکل آئیں گے ۔ شبستان: رات گزارنے کی جگہ، خواب گاہ، رات کی انجمن ۔ کہن: پرانا ۔
مطلب: قیامت کیا چیز ہے اور یہ کس آج کی ہونے والی کل ہے ۔ اے میری قبر! اے میری پرانی خواب گاہ قیامت کیا ہے ۔
—————————-
قبر
اے مردہَ صد سالہ! تجھے کیا نہیں معلوم
ہر موت کا پوشیدہ تقاضا ہے قیامت
معانی: مردہ صد سالہ: سو سالہ مردہ، پرانا ۔ پوشیدہ: چھپا ہوا ۔ تقاضا: ضرورت، لازمی، انجام ۔
مطلب: اے سو سالہ مرے ہوئے مردے کیا تجھے معلوم نہیں ہے کہ ہر موت کے پیچھے اس کی جو ضرورت ہے یا ہر موت کا جو چھپا ہوا لازمی نتیجہ ہے وہ قیامت ہے یعنی ہر مرنے والے نے ایک دن حساب کتاب دینے کے لیے اٹھنا ہے اس دن کا نام قیامت ہے یہ ایسا دن ہے جو ہر مرنے والے لازماً پیش آنا ہے ۔
—————————-
مردہ
جس موت کا پوشیدہ تقاضا ہے قیامت
اس موت کے پھندے میں گرفتار نہیں میں
معانی: پوشیدہ: چھپا ہوا ۔ پھندہ: جال ۔ گرفتار: پھنسا ہوا ۔
مطلب : اے قبر جس موت کا چھپا ہوا لازمی نتیجہ یا ضرورت قیامت ہے میں اس جال میں پھنسا ہوا نہیں ہوں ۔ میں وہ مردہ ہوں جو قیامت کے دن بھی اپنی قبر میں سویا رہے گا ۔
—————————-
ہر چند کہ ہوں مردہَ صد سالہ ولیکن
ظلمت کدہَ خاک سے بیزار نہیں میں
معانی: ہر چند: اگرچہ ۔ مردہ صد سالہ: سو سال پرانا مردہ ۔ ظلمت کدہ خاک: مٹی کے اندر تاریکیوں کا گھر ۔ بیزار: اکتایا ہوا ۔
مطلب: اگرچہ مجھے مرے ہوئے سو سال گزر چکے ہیں لیکن میں اپنے مٹی کے اس تاریک گھر سے جس کا نام قبر ہے اکتایا ہوا نہیں ہوں ۔ میں قیامت کے دن بھی اپنے قبر کے گھر کو نہیں چھوڑوں گا ۔
—————————-
ہو رُوح پھر اک بار سوارِ بدنِ زار
ایسی ہے قیامت تو خریدار نہیں میں
معانی: سوار بدن زار: کمزور اور مٹے ہوئے جسم پر سوار ۔
مطلب: اگر قیامت اس کا نام ہے کہ مرے ہوئے جسموں میں پھر روح داخل کر کے ان کو زندہ کیا جائے گا تو ایسی قیامت سے مجھے کوئی سروکار نہیں ۔ اس کا میں خریدار نہیں کیونکہ مجھے جو لطف قبر کے تاریک خانہ میں روح اور زندگی کے بغیر مل رہا ہے ۔ وہ زندہ ہو کر نہیں ملے گا ۔ زندہ ہو کر تو زندگی کے کام کاج کا بوجھ پھر اٹھانا پڑے گا اور پھر سے عمل اختیار کرنا پڑے گا ۔ ا س کے برعکس یہاں نہ محنت ہے نہ مشقت ہے آرام ہی آرام ہے ۔ مجھے دوبارہ زندہ ہونے کی ضرورت نہیں ۔
—————————-
صدائے غیب
نے نصیب مار و کژدم نے نصیب دام و دد
ہے فقط محکوم قوموں کے لیے مرگِ ابد
مطلب: نے: نہیں نصیب: قسمت ۔ مار: سانپ ۔ کژدم: بچھو ۔ محکوم: غلام ۔ دام و دد : درندے ۔
مطلب : مردہ کی بات سن کر غیب سے ایک آواز آتی ہے کہ اے صد سالہ مردے تو زندہ نہیں ہونا چاہتا اور ہمیشہ کی موت سونا چاہتا ہے یہ تو سانپِ بچھو، درندہ وغیرہ کی بھی قسمت میں نہیں ہے ۔ اور تو انسان ہو کر ہمیشہ کی موت سے محبت کر رہا ہے اور مرنے کے بعد پھر زندہ ہونے کے عمل سے اکتایا ہوا ہے معلوم ہوتا ہے تو کسی غلام قوم کا فرد ہے ۔ اسی لیے دوبارہ زندہ ہونے سے بچ رہا ہے کیونکہ ایسی موت غلام کی ہو سکتی ہے آزاد کی نہیں ۔
—————————-
بانگِ اسرافیل ان کو زندہ کر سکتی نہیں
روح سے تھا زندگی میں بھی تہی جن کا جسد
معانی: بانگ اسرافیل: اسرافیل کی آواز، اسرافیل ایک فرشتہ ہے جو قیامت کے روز ایک آلہ بنام صور میں سے بلند آواز پیدا کرے گا ۔ جس کے سننے سے سارے مردے جی اٹھیں گے ۔ تہی: خالی ۔ جسد: جسم، بدن ۔
مطلب: غلام کی زندگی بھی موت کے برابر ہوتی ہے ۔ اس کا جسم روح سے خالی ہوتا ہے ان معنوں میں کہ وہ زندہ ضرور ہوتا ہے لیکن اس کے جسم و روح پر اس کے آقا کا حکم چلتا ہے ۔ وہ ایک زندہ جنازہ ہوتا ہے ۔ جس مردہ کی زندگی کی یہ صورت ہو اس کو تو اسرافیل فرشتے کے صور پھونکنے کی آواز بھی زندہ نہیں کر سکے گی ۔
—————————-
مر کے جی اٹھنا فقط آزاد مردوں کا ہے کام
گرچہ ہر ذی روح کی منزل ہے آغوشِ لحد
معانی: فقط: صرف ۔ ذی روح: روح رکھنے والا،مراد آدمی، انسان ۔ آغوش لحد: قبر کی آغوش ۔
مطلب: صدائے غیب ایک قاعدہ ایک کلیہ ایک اصول بیان کرتی ہے کہ مرنے کے بعد دوبارہ جینا آزاد لوگوں کی قسمت میں لکھا گیا ہے ۔ اگرچہ ہر روح والے ہر زندہ آدمی کو ایک نہ ایک دن مر کر قبر کی گود میں جانا ہے لیکن فرق یہ ہے کہ غلام اس گود میں ہمیشہ کے لیے سویا رہے گا لیکن آزاد مر کر پھر جی اٹھے گا ۔
—————————-
قبر (اپنے مردہ سے )
آہ ظالم! تو جہاں میں بندہَ محکوم تھا
میں نہ سمجھی تھی کہ ہے کیوں خاک میری سوزناک
معانی: بندہ محکوم: غلام آدمی ۔ خاک: مٹی ۔ سوزناک: جلن والی ۔
مطلب: صدائے غیب سن کر اور مردے کی دوبارہ زندہ نہ ہونے کی خواہش کو دیکھ کر قبر چلا اٹھتی ہے کہ اے وہ شخص جو میری گود میں سویا ہوا ہے تو نے مجھ پر بڑا ظلم کیا ہے کہ غلام ہو کر میری گود میں آرام کرنے کے لیے آ گیا ہے ۔ جب سے تو آیا ہے میری مٹی میں جلن پیدا ہو گئی ہے ۔ یہ صرف اس لیے ہوئی ہے کہ تو زندگی میں غلام تھا ۔
—————————-
تیری میت سے مری تاریکیاں تاریک تر
تیری میت سے ز میں کا پردہَ ناموس چاک
معانی: میت: نعش ۔ تاریک تر: زیادہ تاریک زیادہ اندھیری ۔ پردہ ناموس: عزت کا پردہ ۔ چاک: پھٹنا ۔
مطلب: تیری نعش سے وہ اندھیرا جو میرے اندر پہلے سے موجود تھا اور بڑھ گیا ہے ۔ تیری نعش نے تو زمین کا پردہ بھی پھاڑ دیا ہے ۔ تیرے زمین میں آنے سے زمین کی عزت بھی برباد ہو گئی ہے ۔
—————————-
الحذر! محکوم کی میت سے سو بار الحذر
اے اسرافیل! اے خدائے کائنات! اے جانِ پاک
معانی: الحذر: ڈرو ۔ محکوم: غلام ۔ میت: نعش ۔ سوبار: بہت زیادہ، ہر وقت ۔ سرافیل: ایک فرشتہ کا نام جس کے ایک آلہ کے پھونکے جانے پر قیامت کے دن مردے زمین سے اٹھ کھڑے ہوں گے ۔
مطلب : ڈرو محکوم کی نعش سے بار بار ڈرو ۔ ہر وقت ڈرو اے قیامت کے روز صور پھونکنے والے فرشتہ تو کہاں ہے ۔ جلد صور پھونک تاکہ میری گود اس میت سے خالی ہو جائے ۔ اے کائنات کے خدا تو اس مردے سے میری گود کو خالی کر دے اور اس کی جگہ کوئی پاک جان میرے سپرد کر دے ۔ کوئی ایسی جان جو غلامی کی آلودگی سے پاک ہو ۔
—————————-
صدائے غیب
گرچہ برہم ہے قیامت سے نظامِ ہست و بود
ہیں اسی آشوب سے بے پردہ اسرارِ وجود
معانی: نظام ہست و بود: دنیا کا نظام ۔ بے پردہ اسرار وجود: وجود کے بھید کا ظاہر ہونا ۔ وجود : ہستی، زندگی ۔ آشوب: ہنگامہ، شورش ۔ اسرار: سر کی جمع، بھید ۔ برہم: منتشر ۔ ہست و بود: وہ دینا جو اس وقت وجود رکھتی ہے اور پہلے عدم تھی اور پھر عدم ہو جائے گی ۔
مطلب: اگرچہ قیامت برپا ہونے سے دنیا کا نظام منتشر ہو جائے گا لیکن اس ہنگامہ سے اس دنیا کے اور اس زندگی کے بھید ظاہر ہو جائیں گے ۔ اور جو کچھ کسی نے اپنی زندگی میں کیا ہے وہ سب کچھ اس کے سامنے آ جائے گا ۔ اور پرانی زندگی کی جگہ نئی زندگی لے گی ۔
—————————-
زلزلے سے کوہ و در اڑتے ہیں مانندِ سحاب
زلزلے سے وادیوں میں تازہ چشموں کی نمود
معانی: زلزلہ: بھونچال ۔ کوہ: پہاڑ ۔ سحاب: بادل ۔ وادی: دو پہاڑوں کے درمیان کا میدان ۔ نمود: ظاہر ۔
مطلب: صدائے غیب نے بھونچال کی مثال دے کر دنیا اور اس کے بعد کی زندگی کی صورت حال سمجھائی ہے اور کہا ہے کہ بھونچال سے جہاں پہاڑ گھاٹیاں اور درے اور آبادیاں تباہ ہو جاتی ہیں اور وہ بادل کی مانند اڑتی نظر آتی ہیں وہاں پہاڑوں سے چشمے بھی پھوٹ پڑتے ہیں ۔ اور ان کے درمیان کے میدان سیراب ہونے لگتے ہیں اور وہ ہرے بھرے ہو جاتے ہیں ۔ قیامت بے شک اس کائنات کو جس میں ہم زندگی گزار رہے ہیں برباد کر دے گی لیکن اس سے ایک نئی دنیا ایک نئے جہان اور ایک نئی زندگی کا آغاز ہو گا ۔
—————————-
ہر نئی تعمیر کو لازم ہے تخریبِ تمام
ہے اسی میں مشکلاتِ زندگانی کی کشود
معانی:تعمیر: آبادی ۔ لازم ہے: ضروری ہے ۔ تخریب: تباہی ۔ تمام: مکمل، بالکل ۔ زندگانی: زندگی ۔ کشود: کھلنا، حل ۔
مطلب: اصول یہ ہے کہ نئی آبادی کے لیے پرانی آبادی کو بالکل ختم کرنا پڑتا ہے ۔ زندگی کی مشکلات کے حل کے لئے کائنات کو ایک نہ ایک دن ختم کرنا اور اس کی جگہ ایک نئی کائنات کو جگہ دینا ضروری ہے ۔ قیامت برپا ہونے سے انسان کی موجودہ زندگی اور اس کی مشکلات ختم ہو جائیں گی اور اسے اس کی جگہ ایک نئی طرز کی زندگی مل جائے گی وہ جسے آخرت کی زندگی کہتے ہیں ۔
—————————-
آہ یہ مرگِ دوام! آہ یہ رزمِ حیات
ختم بھی ہو گی کبھی کشمکشِ کائنات
معانی: مرگ دوام: ہمیشہ کی موت ۔ رزم حیات: زندگی کی جنگ ۔ آہ: افسوس ہے ۔ کشمکش کائنات: کائنات میں جو کھینچا تانی ہے زندگی کی جو تگ و دو ہے ۔
مطلب: قبر، مردہ اور صدائے غیب کی ساری باتیں سننے کے بعد زمین کہتی ہے کہ مجھے افسوس ہے اس موت پر جو ہمیشہ کے لیے ہو گی ۔ جس میں مر کر جی اٹھنے کی بات نہیں ہو گی اس پر جو غلام کی زندگی ہے مجھے افسوس ہے جس میں کوئی شکست کھاتا ہے اور کوئی جیت جاتا ہے ۔ دنیا کے اندر یہ جو انسانی تگ و دو کا عمل ہے یہ کسی دن ختم بھی ہو گا یا نہیں ہو گا مراد ہے کہ اس کے خاتمے پر ہی میں مطمئن ہوں گی اور یہ خاتمہ قیامت برپا ہونے پر ہی ہو گا ۔
—————————-
عقل کو ملتی نہیں اپنے بتوں سے نجات
عارف و عامی تمام بندہَ لات و منات
معانی: نجات: رہائی ۔ عارف: خدا کی پہچان رکھنے والا، خاص آدمی ۔ عامی: عام آدمی ۔ بندہ: غلام ۔ لات و منات: دو بتوں کے نام ۔
مطلب: اس دور میں عشق اورجذبہ مغلوب ہو چکا ہے اور ہر طرف عقل کی حکمرانی نظر آتی ہے ۔ ایسی عقل جس نے غیر اللہ اور غیر یقینی کے طرح طرح کے بت تراش رکھے ہیں اور آدمی عام ہو یا خاص ہو خدا کی معرفت کا دعویٰ کرنے والا ہو یا اس کی پہچان سے غافل ہو سب اس عقل کے گھڑے ہوئے طرح طرح کے اور رنگ رنگ کے بتوں کے غلام بنے ہوئے ہیں اور اللہ کے غلام کہیں بھی نظر نہیں آتے نتیجہ یہ ہے کہ معاشرے میں ہر طرف شیطنت پھیلی ہوئی ہے ۔
—————————-
خوار ہوا کس قدر آدمِ یزداں صفات
قلب و نظر پر گراں ایسے جہاں کا ثبات
معانی: خوار: ذلیل ۔ کس قدر: کتنا ۔ آدم یزداں صفات: خدا کی صفات رکھنے والا آدمی ۔ آدم: آدمی ۔ یزداں :خدا ۔ صفات: صفت کی جمع ۔ قلب: دل ۔ گراں : بھاری، بوجھل ۔ جہاں : دنیا ۔ ثبات: پائیداری، قائم رہنا ۔
مطلب: اس دور میں مغرب کی تہذیب و ثقافت، علم و ہنر اور سیاسی داوَ پیچ کی بنا پر وہ آدمی جو خدا کی صفتوں کا مظہر کہا جاتا ہے جتنا ذلیل ہوا ہے پہلے کبھی نہیں ہوا ۔ آدم کو اللہ تعالیٰ نے اپنے نائب اور خلیفہ کے طور پر زمین پر بھیجا تھا ۔ اس میں اپنی صفتوں کے اظہار سے اسے جملہ مخلوق کا سردار اور ہر دوسری مخلوق سے افضل بنایا تھا ۔ ظاہر ہے ایسا آدمی شیطان سے مات نہیں کھا سکتا لیکن آج کے د ور کا آدمی اپنے مقام اور درجہ کو بھلا کر شیطان کے قدموں میں گرا ہوا ہے ۔ اس نے اپنی شرافت اور بزرگی کو خود ہی روند ڈالا ہے ۔ عہد حاضر کا یہ جہان جس میں آدمیت اور انسانیت کی اس حد تک تذلیل ہو ئی ہے کہ شیطان اس سے شرماتا ہے اس قابل نہیں ہے کہ قائم رہے یہ ایک اچھے اور صحیح انسان کے دل اور نگاہ پر بوجھ بنا ہوا ہے ۔
—————————-
کیوں نہیں ہوتی سحر حضرتِ انساں کی رات
معانی: سحر: صبح ۔ حضرت: بزرگی کا کلمہ ہے، مراد جناب، حضور ۔
مطلب: وہ انسان جس کے حضور اور جس کی جناب میں کبھی فرشتوں نے سجدہ کیا تھا اور جسے نائب خدا اور خلیفہ خدا کا مقام حاصل تھا اور اس دور میں اپنی حقیقت کو بھول کر ایسا شیطان صفت بن چکا ہے کہ اس کی زندگی کا جہان رات کی تاریکی کی طرح بے نور اور خوفناک بن چکا ہے ۔ آخر اس کی دنیائے زندگی کی یہ رات کب ختم ہو گی کب وہ اسے صبح روشن میں تبدیل کرے گا ۔ کب وہ اجلا ستھرا اور صحیح انسان بنے گا ۔ کب اسے اس بات کا خیال آئے گا کہ وہ تو ہر مخلوق سے افضل ہے ۔ ہر مخلوق یہاں تک کہ شیطان بھی اس کے تابع ہے ۔ عہد حاضر کے علوم و فنون، عقل و دانش ، تہذیب و تمدن، ثقافت و معاشرت وغیرہ سے جو اہل مغرب نے ہ میں دی ہے یہ امید رکھنا کہ وہ انسانی زندگی کی تاریک رات کو روشن صبح میں تبدیل کر سکے گی فضول ہے ۔ اس لیے ایسے جہان کے قائم رہنے سے جس میں انسان شیطنت کی تاریکی میں زندگی گزار رہا ہے اس کا نہ قائم رہنا ہی بہتر ہے یا پھر کوئی ایسا مرد مومن پھر پیدا ہو جائے جس کے ہاتھوں میں زمان و مکان کے گھوڑے کی لگا م ہوتی ہے تاکہ وہ اسے اپنے فکر و عمل کے نقش سے پھر سے انسانوں کے رہنے کے قابل بنا دے ۔
—————————-
Transliteration