با نگ درا - ظریفانہ - (حصہ سوم)علامہ اقبال شاعری

تہذيب کے مريض کو گولی سے فائدہ

تہذیب کے مریض کو گولی سے فائدہ
دفعِ مرض کے واسطے پل پیش کیجیے

معانی: تہذیب کا مریض: برصغیر کا وہ شخص جس کے سر پر مغربی یعنی انگریزی تہذیب کا بھوت سوار ہو، مغرب زدہ ۔ گولی: دوائی کی چھوٹی سی ٹکی ۔ دفعِ مرض: بیماری دور کرنا: پل: انگریزی میں دوائی کی ٹکیا ۔
مطلب: نئی تہذیب کے مارے ہوئے کسی مریض کو اگر ڈاکٹر دوا دیتا ہے اور وہ مریض سے کہتا ہے کہ یہ گولی کھا لیجیے تو وہ اس سے متاثر ہونے کی بجائے دفع مرض کے لیے پِل پیش کرنے پر اظہار مسرت کرتا ہے ۔

تھے وہ بھی دن کہ خدمتِ استاد کے عوض
دل چاہتا تھا ہدیہَ دل پیش کیجیے

مطلب: ایک دور وہ بھی تھا کہ تعلیمی اداروں میں اساتذہ جس شفقت کے ساتھ درس دیتے تھے تو ان کی عنایت پر دل پیش کرنے کو جی چاہتا تھا ۔

بدلا زمانہ ایسا کہ لڑکا پس از سبق
کہتا ہے ماسٹر سے کہ بِل پیش کیجیے

مطلب: اب اس طرح سے زمانہ اور اس کی تہذیب بدل چکی ہے کہ طالب علم استاد سے سبق لینے سے قبل اس سے مطالبہ کرتا ہے کہ یہ فرمائیے آپ کا بل یعنی معاوضہ کتنا ہے ۔

——————-

Transliteration

Tehzeeb Ke Mareez Ko Goli Se Faida!
Dafa-e-Marz Ke Waaste ‘Pill’ Paish Kijiye

The Woh Bhi Din Ke Khidmat-e-Ustad Ke Ewz
Dil Chahta Tha Hadiya-e-Dil Paish Kijiye

Badla Zamana Aesa Ke Larka Pas Az Sabaq
Kehta Hai Master Se Ke “Bill Paish Kijiye!”

———————

The patient of civilization will not be cured by the goli
For curing of the malady you should present him with pill

There was a time when in exchange for the teacher’s services
One wanted that the gift of the heart he should present!

Times have changed so much that the pupil after the lesson
Says to the teacher “You should present the bill”

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button