ملا زادہ ضیغم لولابی کشمیری کا بیاضعلامہ اقبال شاعری

دراج کي پرواز ميں ہے شوکت شاہيں

(Armaghan-e-Hijaz-26)

Durraj Ki Parwaz Mein Hai Shaukat-e-Shaheen

(The partridge flies with the majesty of the falcons)

درّاج کی پرواز میں ہے شوکتِ شاہیں
حیرت میں ہے صیّاد یہ شاہیں ہے کہ درّاج

معانی: دراج: تیتر ۔ پرواز: شوکت شاہیں : شاہین کی جمع ۔ صیاد: شکاری ۔ شاہین: ایک سفید رنگ کا پرندہ جو کمزور پرندوں کا شکار کرتا ہے ۔
مطلب: اس شعر میں تیتر اور شاہین اور صیاد کی علامتوں میں کشمیری عوام کی آزادی کے لیے جدوجہد کرنے کی بات کی گئی ہے ۔ وہ کشمیری جو صدیوں سے تیتر کی یعنی کمزور قوم کی غلامانہ زندگی بسر کر رہے ہیں وہ ہندووَں کے ظلم و استبداد کا شکار بنے ہوئے تھے اب ان میں آزادی کی تڑپ پیدا ہونے پر شاہین جیسی جراَت اور طاقت پیدا ہو گئی ہے ۔ کل تک جو شکاری کا شکار ہو رہے تھے آج اپنی ہمت، جرات اور عزم آزادی کی بنا پر شکاری کو پریشان کر رہے ہیں اور شکاری ان کی پرواز دیکھ کر اس شش و پنج میں ہے کہ یہ تیتر ہیں یا باز ہیں ۔ مراد ہے کہ 1930ء میں کشمیریوں نے ڈوگررہ حکمرانوں اور آج کے ہندووَں سے آزادی حاصل کرنے کی جو جرات مندانہ تحریک شروع کی اس کو دیکھ کر حکمران حیرت زدہ ر گئے ہیں اور سوچ رہے ہیں کہ کل تک جو قوم کمزور اور غلام تھی آج اس میں آزاد ہونے کی تڑپ، ہمت اور جرات کہاں سے آ گئی ہے ۔

——————–

ہر قوم کے افکار میں پیدا ہے تلاطم
مشرق میں ہے فردائے قیامت کی نمود آج

معانی: افکار: فکر کی جمع، سوچ ۔ تلاطم: دریا یا سمندر میں طغیانی پیدا ہونا، لہروں کا جوش میں ایک دوسرے سے ٹکرانا، تھپیڑے کھانا ۔ فردائے قیامت: کل آنے والی قیامت ۔ نمود: ظہور ۔
مطلب: یہ صرف کشمیریوں ہی کی بات نہیں ، سارے مشرق میں اہل مغرب کی صدیوں کی غلامی کے خلاف زوردار تحریکیں پیدا ہو چکی ہیں اور مختلف ممالک کے غلامی کے سمندروں میں طغیانی آ چکی ہے جن کی لہریں آزاد ہونے کے لیے ابھر رہی ہیں ۔ آج سارے مشرق میں آنے والی قیامت کا ظہور ہو رہا ہے ۔ مراد ہے جس طرح قیامت کے روز مردے اپنی قبروں میں جاگ اٹھیں گے اسی طرح مشرقی اقوام بھی جو صدیوں سے غفلت کی نیند سوئی ہوئی تھیں اور اپنی غلامی کی زندگی پر رضا مند ہو کر مردہ ہو چکی تھیں آج جاگ رہی ہیں اور اپنی آزادی کے لیے اپنے آقاؤں سے ٹکرانے کا ان میں جذبہ پیدا ہو چکا ہے ۔

——————–

فطرت کے تقاضوں سے ہُوا حشر پہ مجبور
وہ مُردہ کہ تھا بانگِ سرافیل کا محتاج

معانی: فطرت: قدرت، سرشت، خلقت ۔ تقاضاؤں : تقاضا کی جمع، اصرار، طلب، خواہش، ضرورت ۔ حشر: وہ دن جب مردے جی اٹھیں گے اور حساب کتاب دینے اور جزاوسزا کے لیے ایک جگہ جمع ہوں گے، قیامت کا دن ۔ بانگ سرافیل:اسرافیل فرشتے کی آواز قیامت کے دن اسرافیل صور نامی ایک آلہ میں آواز پیدا کرے گا جس کو سن کو تمام مردے اپنی اپنی قبروں اور جگہوں سے زندہ ہو کر میدان حشر میں جمع ہو جائیں گے ۔ محتاج: ضرورت مند ۔
مطلب: قدرت کی طلب اور آدمی کی اپنی خلقت اور سرشت کا اصرار یہ ہے کہ ایک آدمی کسی دوسرے آدمی کا غلام نہ ہو ۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ کتا کتے کے سامنے سر خم نہیں کرتا ۔ لڑ بھڑ جاتا ہے آدمی تو اشرف المخلوق ہے وہ کیوں ایک دوسرے کے سامنے سر خم کرے ۔ آزاد رہنا اس کا پیدائشی حق ہے ۔ آج مشرق کے غلام لوگ اس پیدائشی حق کو حاصل کرنے کے لیے مغرب کے آقاؤں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں ۔ ان غلاموں کی مثال تو ان مردوں کی سی ہو گئی تھی جن کو قیامت کے دن سرافیل فرشتے کے صور پھونکنے کی آواز بھی شاید نہ اٹھا سکتی لیکن آج وہ صور کی اس آواز سے پہلے ہی حشر کی سی زندگی کا نمونہ پیش کر چکے ہیں ۔ مراد ہے کہ مشرق کا غلام وہ اپنی غفلت کی نیند سے بیدار ہو چکا ہے اور اپنی غلامی کی مردہ حالت کو تبدیل کر کے پھر سے آزادی کی زندگی کے حصول کے لیے تڑپ رہا ہے اور اس کے لیے کوشش کر رہا ہے ۔

——————–

Trasliteration

Durraj Ki Parwaz Mein Hai Shaukat-E-Shaheen
Hairat Mein Hai Sayyadm Ye Shaheen Hai Kh Durraj !

The partridge flies with the majesty of the falcons;
the hunter is nonplussed: is it a partridge or a falcon?

Har Qoum Ke Afkar Mein Paida Hai Talatum
Mashriq Mein Hai Farda’ay Qayamat Ki Namood Aaj

Every nation is astir, her thoughts in a constant flux;
today we see in the East the signs of tomorrow’s resurrection.

Fitrat Ke Taqazon Se Huwa Hashar Pe Majboor
Woh Murda Kh Tha Bang-E-Sarafeel Ka Mohtaj

The deadbody, awaiting Israfil’s Call, has all of a sudden risen to life:
Nature’s pitiless laws work wonders.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button