با ل جبر یل - رباعيات

يہ نکتہ ميں نے سيکھا بوالحسن سے

یہ نکتہ میں نے سیکھا بوالحسن سے
 کہ جاں مرتی نہیں مرگِ بدن سے

چمک سورج میں کیا باقی رہے گی
اگر بیزار ہو اپنی کرن سے

مطلب: اقبال کہتے ہیں کہ نکتہ میں نے ابوالحسن سے سیکھا ہے کہ انسان بے شک جسمانی سطح پر وفات پا جاتا ہے لیکن اس کی روح زندہ و برقرار رہتی ہے ۔ بالفاظ دگر اگر کرنیں سورج سے رابطہ ختم کر لیں تو سورج میں وہ تابندگی کیسے برقرار رہے گی جو اس کی پہچان ہے ۔ مراد یہ ہے کہ روح کے بغیر انسان محض ایک تودہ خاک ہے ۔ میرے نزدیک ابوالحسن سے یہاں مراد حضرت علی المرتضیٰ ہیں چونکہ وہ امام حسن کے والد محترم بھی تھے اس لیے ان کی کنیت ابوالحسن تھی ۔ رباعی میں جو نکتہ بیان کیا گیا ہے اس کے اشارے قرآن پاک کی ایک آیت کے حوالے سے نہج البلاغہ کے بعض اشعار میں بھی ملتے ہیں کہ خدا نور ہے اور روح اس نور کی کرن یعنی پرتو ہے ۔

————————-

Transliteration

Ye Nukta Main Ne Sikha Bu-Al-Hassan Se
Ke Jaan Marti Nahin Marg-e-Badan Se

The subtle point that life would not end with the death of the body
I learnt from Abul Hasan*:

*Abul Hasan Ash‘ari

Chamak Sooraj Mein Kya Baqi Rahe Gi
Agar Bezar Ho Apni Kiran Se!

The sun, if it would hate its beam
Will lose all its brilliance.

————————–

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button