طالب علم
خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کر دے
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں
معانی: اضطراب: بے قراری، طوفان ۔ بحر: سمندر ۔
مطلب: اس شعر میں علامہ نے دورِ جدید کے مدرسوں میں پڑھنے والے ان طالب علموں کو جو اہل مغرب کے افکار و خیالات اور ان کی تہذیب و ثقافت کا شکار ہو چکے ہیں کہا ہے کہ تم ایک ایسے سمندر کی مانند ہو جس کی لہروں میں کوئی تڑپ اور بے قراری نظر نہیں آتی ۔ میری دعا ہے کہ خدا تمہاری زندگی کے سمندر کو کسی طوفان سے آشنا کر دے یعنی تمہارے اندر صحیح زندگی، انسانیت اور صحیح مسلمانی کا جذبہ اس حد تک پیدا ہو جائے جیسا کہ سمندر میں طوفان ہوتا ہے
تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ کہ تو
کتاب خواں ہے، مگر صاحبِ کتاب نہیں
معانی: فراغ: فرصت ۔ کتاب خواں : کتاب پڑھنے والا ۔ صاحب کتاب: کتاب کا مالک یعنی کتاب میں جو کچھ لکھا ہے اس پر عمل کرنے والا ۔
مطلب : اس شعر میں علامہ جدید درسگاہوں کے طالب علم کو خطاب کرتے ہوئے یہ کہہ رہے ہیں کہ تجھے کتابیں پڑھنے سے فرصت نہیں اور تو کتابی کیڑا بنا ہوا ہے ۔ تو کتاب پڑھتا ضرور ہے لیکن اس میں جو کچھ لکھا ہے اس پر عمل کی تجھے توفیق نہیں ہے ۔ یہاں علامہ کی مراد ان کتابوں پر عمل کی نہیں ہے جو نصاب جدید میں موجود ہیں اور ان طالب علموں کو گمراہ کر رہی ہیں بلکہ ایسی کتابوں کی طرف اشارہ ہے جن کو پڑھ کر طالب علم صحیح انسان بن جائیں ۔ ایسی کتابیں جدید نصاب میں تو نایاب ہیں البتہ الہامی کتاب قرآن یا اس کی روشنی لیے ہوئے دوسری کتابوں کی صورت میں موجود ہیں ۔ لیکن ان پر بھی آج کا طالب علم عمل کرنے والا نہیں ہے ۔ اسی کو اقبال نے کہا ہے کہ وہ صاحب کتاب نہیں ہے ۔