Notice: Function _load_textdomain_just_in_time was called incorrectly. Translation loading for the rank-math domain was triggered too early. This is usually an indicator for some code in the plugin or theme running too early. Translations should be loaded at the init action or later. Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 6.7.0.) in /home/u500905684/domains/urdupoetrylibrary.com/public_html/wp-includes/functions.php on line 6114

Notice: Function _load_textdomain_just_in_time was called incorrectly. Translation loading for the rocket domain was triggered too early. This is usually an indicator for some code in the plugin or theme running too early. Translations should be loaded at the init action or later. Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 6.7.0.) in /home/u500905684/domains/urdupoetrylibrary.com/public_html/wp-includes/functions.php on line 6114
Mataa-e-Bebaha Hai Dard-o-Souz-e-Arzoo-Mandi
علامہ اقبال شاعریبال جبریل (حصہ اول)

متاع بے بہا ہے درد و سوز آرزو مندی

متاعِ بے بہا ہے درد و سوزِ آرزو مندی
مقامِ بندگی دے کر نہ لوں شانِ خداوندی

معانی: متاع: سامان ۔ بے بہا: یعنی ایسی قیمت جو ادا نہ ہو سکے ۔ مقام بندگی: اطاعت کا مقام ۔ شانِ خداوندی: اللہ کی شان کے مقابل ۔
مطلب: اس غزل کے مطلع میں اقبال نے کہا ہے کہ عشق حبیب میں سوز و درد ایسے عوامل ہیں جن کی قدر و قمیت کا اندازہ ناممکنات سے ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ میں اپنے وجود کی انفرادیت کے مقابلے میں آقائیت کی بے نیازی کا سودا کرنے کے لیے تیار نہ ہو سکوں گا ۔

ترے آزاد بندوں کی نہ یہ دنیا، نہ وہ دنیا
یہاں مرنے کی پابندی، وہاں جینے کی پابندی

آزاد بندوں : جو ہر طرح بلند نظر ہوں ۔
مطلب: اس شعر میں اقبال خداوند تعالیٰ سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ باری تعالیٰ ہم انسان اپنے وجود میں کیسے آزاد ہوئے جب کہ زندگی میں تو ہم پر فنا ہونے کی پابندی عائد کی گئی ہے اور موت کے بعد دوبارہ جینا بھی ممکن نہیں ہے ۔ وہ کہنا یہ چاہتے ہیں کہ انسان اپنی ذات میں خودمختار کیسے ہوا جب کہ اسے اپنی مرضی سے نہ تو مرنے کا اختیار ہے نا ہی بعد از فنا دوبارہ زندہ ہونے کے استطاعت رکھتا ہے ۔

حجاب اکسیر ہے آوارہَ کوئے محبت کو
مری آتش کو بھڑکاتی ہے تیری دیر پیوندی

معانی: حجاب: پردہ ۔ اکسیر: بہترین دوا ۔ آوارہَ کوئے محبت: محبت کو کوچے میں پھرنے والا ۔ دیر پیوندی: دیر سے ملنے والا ۔
مطلب: محبت میں سرگردانی تو چاہنے والے کا مقدر ہوتی ہے تاہم یہ ضرورت ہے کہ محبوب کا پردے میں رہنا اس کے جذبات کے لیے اکسیر کی حیثیت رکھتا ہے ۔ کہ محبوب جب تا دیر پردے میں رہے تو سوز عشق میں اضافہ ہوتا جاتا ہے ۔ بالفاظ دگر ہجر کی گھڑیاں عاشق کے لیے اضطراب کا سبب بن جاتی ہیں ۔

گزر اوقات کر لیتا ہے یہ کوہ و بیاباں میں
کہ شاہیں کے لیے ذلت ہے کارِ آشیاں بندی

معانی: گزر اوقات: گزارا کرنا ۔ کوہ و بیاباں : پہاڑوں اور جنگلوں میں ۔ شاہیں : باز ۔ ذلت: بے عزتی ۔ کار آشیاں بندی: گھونسلہ بنانا ۔
مطلب: اس شعر میں شاہیں کا استعارہ شاعر نے بلند حوصلہ اور جرات مند لوگوں کے لیے استعمال کیا ہے کہ جس طرح شاہیں اپنا گھونسلہ بنانے کو ذلت تصور کرتا ہے اس کے برعکس وہ آزادانہ پرواز کے ساتھ پہاڑوں اور جنگلوں میں بسیرا کرتا ہے اسی طرح مردان حر کو بھی کسی خاص مکان کی ضرورت نہیں ہوتی کہ وہاں اپنا سر چھپا کر بیٹھ جائیں بلکہ وہ جدوجہد کے ذریعے اپنا مستقبل استوار کرتے ہیں ۔

یہ فیضانِ نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیل کو آدابِ فرزندی

معانی: فیضانِ نظر: نظر کی عطا تھی ۔ مکتب: مدرسہ ۔ اسماعیل: حضرت اسماعیل ۔ آداب فرزندی: بیٹا ہونے کے آداب ۔
مطلب: حضرت اسماعیل نے اپنے پدر بزرگوار حضرت ابراہیم کے خواب کی تکمیل کے لیے جس طرح خود کو قربانی کے لیے پیش کیا ان کا یہ کردار کسی مدرسے کی تعلیمات کا نتیجہ نہ تھا بلکہ اس میں حضرت ابراہیم کی تربیت کا پوری طرح سے عمل دخل تھا ۔ اقبال کے مطابق نیک اور فرمانبردار اولاد کا ایسا ہی کردار ہونا چاہیے جیسا کہ حضرت اسماعیل کا تھا ۔ ان کی فرمانبرداری اور جذبہ قربانی ایک ایسی مثالی حیثیت کے حامل ہیں جو ہمیشہ یادگار رہیں گے ۔

زیارت گاہِ اہلِ عزم و ہمت ہے لحد میری
کہ خاکِ راہ کو میں نے بتایا رازِ الوندی

معانی: زیارت: دیکھنے کی جگہ ۔ اہل عزم و ہمت: ہمت والے بہادر لوگ ۔ لحد میری: میری قبر ۔ خاک راہ: آدمی ۔ الوندی: پہاڑ کا نام ۔
مطلب: اقبال اس شعر میں کہتے ہیں کہ موت کے بعد میری لحد مستحکم ارادہ رکھنے والے اور حوصلہ مند لوگوں کے لیے زیارت گاہ کی حیثیت اختیار کر لے گی کہ میری تعلیمات نے تو راستے کی خاک پر بھی قدرت الہٰی کے راز افشاں کر دیے ۔

مری مشاطگی کی کیا ضرورت حسنِ معنی کو
کہ فطرت خود بخود کرتی ہے لالے کی حنا بندی

معانی: مشاطگی: کنگھی کرنا ۔ حسن معنی: علم کی خوبی ۔ فطرت: قدرت ۔ لالے: پھول ۔ حنا بندی: سرخ کرنا ۔
مطلب: فطری حسن کو کسی بناوٹ اور سنگھار کی ضرورت نہیں ہوتی جس طرح قدرت نے لالے کے پھول کو ایک فطری سرخ رنگ عطا کیا ہے اسی طرح سے سچائی کے اظہار میں کسی طمع سازی کی حاجت نہیں ہوتی ۔

——————————

Translation

Mataa-e-Bebaha Hai Dard-o-Souz-e-Arzoo-Mandi
Maqam-e-Bandagi De Kar Na Loon Shan-e-Khudawandi

Tere Azad Bandon Ki Na Ye Dunya, Na Woh Dunya
Yahan Merne Ki Pabandi, Wahan Jeene Ki Pabandi

Hijab-e-Ikseer Hai Awara-e-Koo’ay Mohabbat Ko
Meri Aatish Ko Bharkati Hai Teri Dair Paiwandi

Guzar Auqat Kar Leta Hai Ye Koh-o-Biyaban Mein
Ke Shaheen Ke Liye Zillat Hai Kaar-e-Ashiyan Bandi

Ye Faizan-e-Nazar Tha Ya Ke Maktab Ki Karamat Thi
Sikhaye Kis Ne Ismaeel (A.S.) Ko Adaab-e-Farzandi

Ziarat Gah-e-Ahl-e-Azam-o-Himmat Hai Lehad Meri
Ke Khak-e-Rah Ko Mein Ne Bataya Raaz-e-Alwandi

Meri Mashatagi Ki Kya Zaroorat Husn-e-Maani Ko
Ke Fitrat Khud Ba Khud Karti Hai Lale Ki Hina Bandi

———————-

Slow fire of longing—wealth beyond compare;
I will not change my prayer‐mat for Heaven’s chair!

Ill fits this world of Your freemen, ill the next:
Death’s hard yoke frets them here, life’s hard yoke there.

Close veils inflame the loiterer in Love’s lane;
Your long reluctance fans my passion’s flare.

The hawk lives out his days in rocks and desert,
Tame nest‐twig‐carrying his proud claws forswear.

Was it book‐lesson, or father’s glance, that taught
The son of Abraham what son should bear?

Bold hearts, firm souls, come pilgrim to my tomb;
I taught poor dust to tower hill‐high in air.

Truth has no need of me for tiring‐maid;
To stain the tulip red is Nature’s care.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button