بال جبریل (حصہ دوم)علامہ اقبال شاعری

خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہيں

خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہیں
ترا علاج نظر کے سوا کچھ اور نہیں

معانی: خرد: عقل ۔
مطلب: ہمارے دانشور اور فلسفی مستعار نظریات اور ادھر ادھر سے اکٹھی کی ہوئی باتوں کے علاوہ حقائق کے اظہار سے محروم ہیں اور یہ بھی نہیں جانتے کہ معاشرتی سطح پر جو خامیاں موجود ہیں ان کا تدارک کسی صاحب دل کی نگاہ دوررس سے ہی ہو سکتا ہے ۔

ہر اک مقام سے آگے مقام ہے تیرا
حیات ذوقِ سفر کے سوا کچھ اور نہیں

مطلب: تیرا مرتبہ ہر مقام سے بلند ہے تاہم اس بھید کو پانا ناگزیر ہے کہ زندگی ایک طرح سے مسلسل جدوجہد اور عمل سے عبارت ہے ۔

گراں بہا تو حفظِ خودی سے ہے ، ورنہ
گہر میں آب و گہر کے سوا کچھ اور نہیں

مطلب: جس طرح سے موتی کی قدروقیمت کا اندازہ اس کی آب و تاب سے کیا جا سکتا ہے اسی طرح انسان کی قدروقیمت خودی کے تحفظ سے ہے ۔

رگوں میں گردشِ خوں ہے اگر تو کیا حاصل
حیات سوزِ جگر کے سوا کچھ اور نہیں

مطلب: زندگی فی الواقع جگر میں سوز و گداز سے لبریز ہونے کا نام ہے ۔ محض رگوں میں خون کی گردش کا نام ہی زندگی نہیں ۔

عروسِ لالہ! مناسب نہیں ہے مجھ سے حجاب
کہ میں نسیمِ سحر کے سوا کچھ اور نہیں

مطلب: یہاں اقبال کہتے ہیں کہ اے میرے محبوب تو تو گل لالہ کیا طرح سرخ ہے مجھ سے حجاب کیا کہ میں تو نسیم سحر کے مانند ہوں ۔

جسے کساد سمجھتے ہیں تاجرانِ فرنگ
وہ شے متاعِ ہنر کے سوا کچھ اور نہیں

مطلب: مغربی تاجر حقیقی ہنر کی قدروقیمت کو نظر انداز کر کے نمائشی ہنر کی بدولت روزی کما رہے ہیں ۔ جو باتیں عالم انسانیت کے لیے مفید ہیں انہیں پس پشت ڈال رہے ہیں حالانکہ اصل شے ہنر کی متاع ہے ۔

بڑا کریم ہے اقبالِ بے نوا لیکن
عطائے شعلہ شرر کے سوا کچھ اور نہیں

مطلب: نظم کے اس آخری شعر میں اقبال کہتے ہیں کہ میرا کل اثاثہ عشق حقیقی ہے ہے اور اپنے گردوپیش کے لوگوں میں میں اسی اثاثہ سے حسب استطاعت تقسیم کرتا رہتا ہوں ۔

——————-

Translation

Khird Ke Paas Khabar Ke Siwa Kuch Aur Nahin
Tera Ilaj Nazar Ke Siwa Kuch Aur Nahin

Har Ek Maqam Se Agay Maqam Hai Tera
Hayat Zauq-e-Safar Ke Siwa Kuch Aur Nahin

Giran Baha Hai To Hifz-e-Khudi Se Hai Warna
Guhar Mein Aab-e-Guhar Ke Siwa Kuch Aur Nahin

Ragon Mein Gardish-e-Khoon Hai Agar To Kya Hasil
Hayat Souz-e-Jigar Ke Siwa Kuch Aur Nahin

Uroos-e-Lala! Munasib Nahin Hai Mujh Se Hijab
Ke Main Naseem-e-Sehar Ke Siwa Kuch Aur Nahin

Jise Kisaad Samjhte Hain Tajiran-e-Farang
Woh Shay Mata-e-Hunar Ke Siwa Kuch Aur Nahin

Bara Kareem Hai Iqbal Be-Nawa Lekin
Atta-e-Shola Sharar Ke Siwa Kuch Aur Nahin

————————-

The mind can give you naught, but what with doubt is fraught:
One look of Saintly Guide can needful cure provide.

The goal that you presume is far and out of view:
What else can be this life but zeal for endless strife?

Much worth the pearl begets, for guard on self it sets:
What else in pearl is found except its sheen profound?

Though blood in veins may race, To Life it lends no grace:
Only the glow of heart to Life can zeal impart.

Wherefore, O Tulip Bride, From me your charms you hide?
I am the breath of morn, Your face I would adorn.

What Frankish dealers take for counterfeit and fake,
Is true and real art—Not valued in their Mart.

Though indigent I be, I am of hand yet free:
What can the Flame bestow except its spark and glow?

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button