کافر و مومن
کل ساحلِ دریا پہ کہا مجھ سے خضر نے
تو ڈھونڈ رہا ہے سمِ افرنگ کا تریاق
معانی: سم: زہر ۔ افرنگ: انگریز ۔ تریاق: علاج کی دوا ۔
مطلب: شاعر کہتا ہے کہ کل مجھے دریا کے کنارے حضرت خضر مل گئے وہ خود ہی پوچھنے لگے اے شخص کیا تو اہل یورپ کے زہر کا علاج ڈھونڈ رہا ہے ۔
اک نکتہ مرے پاس ہے شمشیر کی مانند
برّندہ و صیقل زدہ و روشن و برّاق
معانی: برندہ: کانٹنے والا ۔ صیقل: چمکدار ۔ روشن و براق: چمکدار ۔
مطلب: افرنگ کے زہر کے علاج کے لیے میرے پاس ایک نکتہ ہے جو تلوار کی طرح کی کاٹ کا ہے اس کا ذکر اگلے شعر میں ہے ۔
کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے
مومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہیں آفاق
معانی: آفاق میں گم ہے: آسمان کی تحقیق میں لگا ہوا ہے ۔
مطلب: کافر کی پہچان یہ ہے کہ وہ کائنات میں گم ہوتا ہے ۔ مراد یہ ہے کہ وہ مادی جہان اور دنیاوی اغراض و مفادات کے سوا کچھ نہیں سوچتا ۔ اس کا علم ، اس کی حکمت، اس کی سائنس اور اس کی ایجادات سب کائنات کے مادی مفادات کے لیے ہوتی ہیں ۔ وہ کائنات کا غلام ہوتا ہے اور اپنی اور اپنے خدا کی معرفت سے بے گانہ ہوتا ہے ۔ اس کے برعکس مومن کی پہچان یہ ہے کہ کائنات اس میں گم ہوتی ہے ۔ وہ چونکہ کائنات کے خالق کا ہو جاتا ہے اس لیے ساری کائنات اس کی ہو جاتی ہے ۔ وہ اس کی مالک نہیں اس کی خادم بن جاتی ہے ۔