فلسطينی عرب سے
زمانہ اب بھی نہیں جس کے سوز سے فارغ
میں جانتا ہوں وہ آتش ترے وجود میں ہے
معانی: سوز: حرارت ۔ فارغ: خالی ۔ آتش: آگ ۔ وجود: جسم ۔
مطلب: عربوں نے صحرائے عرب سے اٹھ کر ایمان کے زور پر اقوام عالم پر فتح یاب ہو کر مدت تک حکومت کی ہے ۔ آزادی کی حرارت عربوں کے گھٹی میں موجود ہے ۔ اس تناظر میں علامہ کہتے ہیں کہ فلسطین کے عربو! میں جانتا ہوں کہ تمہارے جسموں میں وہ آگ موجود ہے جس نے کبھی فارس اور روما کے تخت الٹ دیے تھے لیکن یہ تمہارے انگریز حاکم (جو پہلی جنگ عظیم میں ترکوں کی شکست کے بعد فلسطین پر قابض ہو گئے تھے اور انھوں نے وہاں یہودیوں کو اس لیے بسانا شروں کر دیا تھا کہ اس ملک فلسطین میں یہودیوں کی ایک آزاد ریاست اسرائیل کے نام سے قائم کی جائے گی ) تمہاری تقریروں اور تحریروں اور مطالبوں سے تمہیں آزاد نہیں کریں گے اور یہودیوں کو تمہارے ملک میں لا کر بسانے سے باز نہیں آئیں گے تاوقتیکہ تم اسی سوز اور آگ سے کام نہ لو گے جو تمہاری سرشت میں موجود ہے ۔
تری دوا نہ جنیوا میں ہے، نہ لندن میں
فرنگ کی رگِ جاں پنجہَ یہود میں ہے
معانی: دوا: علاج ۔ جنیوا: یورپ کے ایک ملک سوءٹزرلینڈ کا دارالحکومت جہاں اقوام متحدہ کا مرکز تھا ۔ لندن: انگریز حاکم کا دارلحکومت ۔ رگ جاں : جان کی رگ ۔ پنجہ یہود: یہودی کا پنجہ ۔
مطلب: تیرا علاج جہاد میں پوشیدہ ہے ۔ اپنے بدن کی حرارت کو عمل میں لا کر آزادی حاصل کرنے میں ہے نہ اس میں کہ تو جنیوا میں جا کر اقوام متحدہ سے فریاد کرے یا انگلستان میں جا کر انگریزوں کی منت کرے کہ وہ تمہارے ملک میں یہودیوں کو لانے اور لا کر بسانے سے باز رہیں ۔ وہاں تمہاری بات کوئی نہیں سنے گا ۔ کیونکہ ان اہل مغرب کی جان کی رگ جو اقوام متحدہ بنائے بیٹھے ہیں یا انگریزوں کی جان کی رگ جو تمہارے ملک کے حاکم بنے ہوئے ہیں یہودیوں کے پنجے میں ہے ۔ کیونکہ یورپ کے سارے ملکوں خصوصاً مغربی ملکوں کی تجارت ، صنعت اور اقتصادیات پر یہودی قابض ہو چکے ہیں اس لیے انگریز وہ کچھ کریں گے اور اقوام متحدہ وہ کچھ کرے گی جو یہودی چاہیں گے ۔ اس لیے اقوام متحدہ یا انگلستان کے پیچھے دوڑنے کی بجائے اپنی خودداری سے کا م لو اور اپنی جدوجہد کے سوز سے انگریزوں اور یہودیوں کو اپنے ملک سے باہر پھینک دو ۔
سُنا ہے میں نے غلامی سے اُمتوں کی نجات
خودی کی پرورش و لذّتِ نمود میں ہے
معانی: نجات ۔ چھٹکارا ۔ خودی: خودشناسی، خود آگاہی ۔ لذت نمود: عمل میں لانے کی لذت ۔
مطلب: علامہ کہتے ہیں کہ میں نے تجربہ کار، اور بزرگ لوگوں سے یہ بات سن رکھی ہے کہ اگر کوئی غلام قوم غلامی سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتی ہے تو اسے پہلے اپنے اندر اپنی خودی کو بیدار کرنا چاہیے اپنی خود آگاہی حاصل کر کے اپنی قوتوں او ر صلاحیتوں سے آشنا ہونا چاہیے اور پھر ان کو عمل میں لا کر آقاؤں اور مالکوں کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا چاہیے ۔ اس میں آزادی کا راز پوشیدہ ہے ۔ اقوام متحدہ یا انگریزوں کے سامنے مطالبات پیش کرنے سے کچھ ہاتھ نہیں آئے گا ۔