شيخ مکتب سے
شیخِ مکتب ہے اک عمارت گر
جس کی صنعت ہے روحِ انسانی
معانی: عمارت گر: عمارت بنانے والا ۔ صنعت: بنائی ہوئی ۔
مطلب: اس مختصر نظم کی اساس فارسی کے بلند پایہ شاعر اور دانشور حکیم قا آنی کے ایک شعر پر قائم ہے ۔ تین اشعار کی اس نظم میں ابتدائی دو اشعار علامہ اقبال کے ہیں ۔ تیسرا اور آخری شعر قا آنی کا ہے جس کی طرف علامہ نے خود اپنے چوتھے مصرع میں اشارہ کیا ہے ۔ فرماتے ہیں مدرسے کا استاد تو ایک ایسے معمار کی حیثیت رکھتا ہے جو اپنے طلبا کو روحانی سطح پر تعمیر و تربیت کرتا ہے ۔ اپنے علم و دانش کے ذریعے وہ طالب علموں کی ذہنی سطح بلند کرتا ہے ۔
نکتہَ دلپذیر تیرے لیے
کہہ گیا ہے حکیم قاآنی
معانی: دلپذیر: دل کو پسند آنے والا ۔ قا آنی: ایران کا فارسی شاعر ۔
مطلب: یہی وہ نکتہ ہے جس کو حکیم قا آنی نے اپنے شعر میں بیان کیا ہے کہ ہر پڑھنے والا اس سے استفادہ کر سکے ۔
پیشِ خورشید برمکش دیوار
خواہی ار صحنِ خانہ نورانی
مطلب: اگر تو اپنے صحن کو نورانی رکھنا چاہتا ہے تو سورج کے سامنے دیوار مت بنا ۔ یعنی کہ ایسی تعمیر و تربیت ہی افادیت کی حامل ہوتی ہے جو فطرت اور صورت حال سے مطابقت رکھے ۔
———————
Transliteration
Sheikh-e-Maktab Hai Ek Amarat Gar
Jis Ki San’at Hai Rooh-e-Insani
Nukta-e-Dilpazeer Tere Liye
Keh Gaya Hai Hakeem-e-Qa’ani
“Paish-e-Khurshid Barmaksh Diwar
Khawahi Ar Sehan-e-Khana Noorani”
————————
The headmaster is an architect
Whose material is the human soul.
A good advice has been left for you
By the sage Qa‘ani:
Do not raise a wall against the Sun
If you wish the courtyard illuminated.”