با ل جبر یل - منظو ما ت

تاتاري کا خواب

کہیں سجاّدہ و عماّمہ رہزن
کہیں ترسا بچوں کی چشمِ بیباک

معانی: سجادہ: گدی نشین ۔ عمامہ: پگڑی والا ۔ رہزن: ڈاکو ۔ ترسا بچوں : عیسائی لڑکوں ۔
مطلب: یہ نظم ایک خواب اور اس خواب کے ردعمل کی مظہر ہے ۔ اس خواب میں ایک تاتاری اپنے قبائل اور ملت کے انحطاط و زوال کے بارے میں اشاراتی سطح پر بعض حقیقتوں کی نشاندہی کرتا ہے ۔ اس خواب کی رسائی تاتاری قبائل کے سب سے بڑے فاتح تیمور کی روح تک ہوتی ہے تو وہ تاتاری قبائل کے مابین چپقلش اور عدم اتحاد کو ان کی بنیادی خامی قرار دیتے ہوئے ان کی بقاء اور استحکام کے لیے ایک اجمالی لاءحہ عمل پیش کرتی ہے ۔ اقبال نے اس نظم میں اپنی متخیلہ کو بروئے کار لاتے ہوئے محض تاتاری قبائل کے مابین نفاق کو ہی ان کی کمزوری اور عدم استحکام کا سبب ہی قرار نہیں دیا بلکہ اس طرح سے پوری ملت اسلامیہ کے بارے میں بنیادی صورت حال کی نشاندہی کی ہے ۔ تاتاری کے اس خواب کے مطابق صورت حال یہ ہے کہ قبائل و ملت کی رہنمائی جن علماء اور صوفیاء کی ذمہ داری تھی وہ خود نہ صرف اپنے منصب کو بھول بیٹھے ہیں بلکہ ان کو غلط راہ پر لگا رہے ہیں ۔ جس کے سبب شدید انتشار پید ا ہو گیا ہے اور نفاق تباہی کا باعث بن گیا ہے ۔ دوسری جانب ساقی گری کرنے والے خوبصورت لڑکوں کی بیباک نگاہیں ان کے دین و ایمان پر ڈاکے ڈال رہی ہیں ۔ مراد یہ ہے کہ تاتاری اول و آخر لہو و لعب اور نفاق کے سبب تباہی و بربادی سے دوچار کر چکے ہیں ۔

ردائے دین و ملت پارہ پارہ
قبائے ملک و دولت چاک در چاک

معانی: ردا: چادر ۔ پارہ پارہ: ٹکڑے ٹکڑے ۔ ملک و دولت: ملک اور حکومت ۔ چاک در چاک: پوری طرح پھٹی ہوئی ۔
مطلب:یہی وہ حالات ہیں جن کے نتیجے میں دین و ملت کا شیرازہ بکھر کر رہ گیا ہے ۔ یہی نہیں بلکہ ملک اور سلطنت بھی انحطاط و زوال کا شکار ہیں یعنی عدم اتحاد اور نفاق کے باعث نہ دین سلامت رہا نا ہی قوم و ملت میں اتحاد و استحکام کی کوئی صورت نظر آتی ہے ۔

مرا ایماں تو ہے باقی و لیکن
نہ کھا جائے کہیں شعلے کو خاشاک

معانی: خاشاک: کوڑا کرکٹ ۔
مطلب: ہر چند کہ ابھی لوگوں میں ایمان کی تھوڑی سی رمق باقی ہے تاہم چہار جانب فتنوں کی جو قیامت برپا ہے ان کے سبب یہ خدشہ خارج از امکان نہیں کہ یہ قیامت ایمان کو بھی بھسم کر ڈالے!

ہوائے تُند کی موجوں میں محصور
سمر قند و بخارا کی کفِ خاک

معانی: ہوائے تُند: تیز ہوا ۔ موجوں : لہروں ۔ محصور: قیدی ۔ سمر قند و بخارا: مسلمانوں کے شہر ۔
مطلب: تاتاری قبائل آپس میں دست و گریباں ہیں ۔ دشمن اس حقیقت سے پوری طرح آگاہ ہو چکے ہیں اور وہ سمر قند و بخارا پر یلغار کے لیے صف آرائی میں مصروف ہیں ۔ تاتاریوں کی غفلت کے باعث ملک و سلطنت دونوں خطرات میں گھر کر رہ گئی ہے ۔ اب بھی اگر انہیں اس حقیقت کا احساس نہ ہوا تو تباہی ان کا مقدر بن جائے گی ۔

بگردا گرد خود چندانکہ بینم
بلا انگشتری و من نگینم

مطلب: میں جتنا اپنے اردگرد دیکھتا ہوں لگتا ہے مصیبت انگوٹھی ہے میں اس کا مرکزی ہیرا ہوں اور مصائب میں گرفتار ہوں ۔

یکایک ہل گئی خاکِ سمرقند
اُٹھا تیمور کی تربت سے اک نور

مطلب: تاتاری جو خواب دیکھ رہا تھا اسی کے دوران ایک عجیب و غریب منظر دیکھنے میں آیا کہ پورے سمر قند میں زمین لرزہ براندام ہو گئی ۔ یوں محسوس ہوا جیسے زبردست زلزلہ رونما ہو گیا ہے حتیٰ کہ تیمور کی قبر بھی ہلنے لگی اور اس کی تربت سے روشنی کی ایک شعاع برآمد ہوئی ۔ اس منظر کو دیکھنے والے حیران و پریشان رہ گئے ۔

شفق آمیز تھی اس کی سفیدی
صدا آئی کہ میں ہوں روحِ تیمور

مطلب: تیمور کی قبر سے جو شعاع برآمد ہوئی ہر چند کہ اس کا رنگ کافی حد تک سفید تھا پھر بھی اس میں یوں لگتا تھا کہ شفق کی سرخی کی کسی حد تک آمیزش موجود ہے ۔ یہی نہیں بلکہ اس شعاع میں سے ایک صدا برآمد ہوئی کہ میں روح تیمور ہوں اور تاتاری قبائل میں عدم اتحاد و نفاق کے سبب ہر لمحہ پریشان اور بے چین رہتی ہوں ۔

اگر محصور ہیں مردانِ تاتار
نہیں اللہ کی تقدیر محصور

مطلب: تاہم اس حقیقت کو جان لو کہ اگر اہل تاتار مصائب میں گھرے ہوئے ہیں اور ہرجانب سے دشمنوں نے ان پر یلغار کر رکھی ہے تو اس سے یہ مراد تو نہیں ہے کہ خداوند تعالیٰ کا اقتدار اعلیٰ بھی ان کے نرغے میں آ گیا ہے ۔ ظاہر ہے کہ رب ذوالجلال ہی کائنات کی ہر شے پر قادر ہے وہ جس کو چاہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہے ذلیل و رسوا کر دیتا ہے اس لیے تاتاری اگر اس کے احکامات کی پیروی کریں تو وہ انہیں یقینا اپنی رحمت سے نواز دے گا ۔

تقاضا زندگی کا کیا یہی ہے
کہ تورانی ہو تورانی سے مہجور

مطلب: کان کھول کر سن لو کہ عزت کے ساتھ زندہ رہنے کے لیے یہ امر لازم ہے کہ قوم و ملت آپس میں مل جل کر رہے ان میں نفاق نہ ہو ۔ اسی صورت میں وہ ہر فتنے اور بلا کا مقابلہ کر کے سرخرو ہو سکتی ہیں ۔ میں روح تیمور! ایک بار پھر تمہیں متنبہ کرتی ہوں کہ نفاق کے سبب تم خود ہی مصیبتوں کے ذمہ دار ہو ۔ اگر حقیقی معنوں میں مل جل کر رہو او ان کا مقابلہ کرو تو کوئی بڑی سے بڑی طاقت بھی تمہیں زیر نہیں کر سکتی کہ یہی عمل زندہ قوموں کی کامیابی اور کامرانی کا باعث ہوتا ہے ۔

خودی را سوز و تابے دیگرے دہ
جہاں را انقلابے دیگرے دہ

مطلب: خودی کو نئی تپش اور جراَت دے اور دنیا میں ایک نیا انقلاب برپا کر دے ۔ میرے عزیز ہم وطنو! میری اس آخری بات کو غور سے سنو! کہ باعزت زندگی گزارنے کے لیے اپنی خودی میں تازہ حرارت اور تب و تاب پیدا کر دو ۔ اس صورت میں تم نہ صرف یہ کہ اپنے مخالفین کو زیر کر سکو گے بلکہ ساری دنیا میں انقلاب برپا کر سکو گے ۔ اس کے لیے یہ امر ناگزیر ہے کہ اپنی صفوں میں اتحاد و استحکام پیدا کرو ۔ باہمی نفاق سے گریز کرو اور آخری بات یہ کہ احکام خداوندی کی ہر صورت میں پیروی کرو کہ یہی تمہارے لیے سربلندی اور نجات کا راستہ ہے ۔

————————————

Transliteration

Prayer‐mat and priestly turban have turned footpad,
With wanton boysʹ bold glances men are flattered;

The Churchʹs mantle and the creed in shreds,
The robe of State and nation torn and tattered.

I cling to faith but may its spark not soon
Lie quenched under these rubbish‐heaps thick‐scattered!

Bokharaʹs humble dust and Samarkandʹs
The turbulent billows of many winds have battered.

A gem set in a ring of misery
That circles me on every side, am I.*

Suddenly quivered the dust of Samarkand,
And from an ancient tomb a light shone, pure

As the first gleam of daybreak, and a voice
Was heard:—“I am the spirit of Timur!

Chains may hold fast the men of Tartary,
But Godʹs firm purposes no bonds endure

Is this what life holds—that Turaniaʹs peoples
All hope in one another must abjure?

Call in the soul of man a new fire to birth!
Cry a new revolution over the earth!”

————————————

Kahin Sajjada-o-Umama Rahzan
Kahin Tarsa Bachon Ki Chashme-e-Bebaak!

Ridaye Deen-o-Millat Para Para
Qabaye Mulk-o-Doulat Chaak Dar Chaak!

Mera Eiman To Hai Baqi-o-Lekin
Na Kha Jaye Kahin Shuale Ko Khashaak!

Hawa-e-Tund Ki Moujon Mein Mehsoor
Samar-o-Bukhara Ki Kaf-e-Khak!

“Bagar Da Gard-e-Khud Chandan Ke Beenam
Bila Anghastari-o-Mann Nageenam”

Yakayak Hil Gyi Khak-e-Samar Qand
Utha Taimoor Ki Turbat Se Ek Noor

Shafaq Amaiz Thi Uss Ki Safaidi
Sada Ayi Ke “Main Hun Rooh-e-Taimoor

Agar Mehsoor Hain Mardan-e-Tatar
Nahin Allah Ki Taqdeer Mehsoor

Taqaza Zindagi Ka Kya Yehi Hai
Ke Turani Ho Turani Se Mehjoor?

‘Khudi Ra Souz-o-Ta Be Degare Dah
Jahan Ra Inqilabe Degare Dah”

————————–

يہ شعر معلوم نہيں کس کا ہے ، نصير الدين طوسي نے غالباً’ شرح اشارات ‘ميں
اسے نقل کيا ہے

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button