ماہر نفسيات سے
جراَت ہے تو افکار کی دنیا سے گذر جا
ہیں بحر خودی میں ابھی پوشیدہ جزیرے
کھلتے نہیں اس قلزم خاموش کے اسرار
جب تک تو اسے ضرب کلیمی سے نہ چیرے
مطلب: ماہر نفسیات سے ہم کلام ہوتے ہوئے اقبال کہتے ہیں کہ تو ہر لمحے جو انسانوں اور ان کے مسائل کے بارے میں جائزے لیتا رہتا ہے یہ سب اپنی جگہ درست سہی! پھر بھی تجھ میں اگر جرات و ہمت ہے تو محض اس خیالی دنیا تک محدود نہ رہ بلکہ اس سے آگے نکل کر یہ بھی دیکھ کر خودی تو ایک بحر بے کنار کی مانند ہے اور اس میں ابھی تک کئی ایسے گوشے موجود ہیں جو انسان کی نظروں سے پوشیدہ ہیں ۔ یاد رکھ کہ خودی ایک ایسا خاموش سمندر ہے جس کے بھیدوں کو اس وقت تک انسان نہیں پا سکتا جب تک کہ وہ حضرت موسیٰ کی پیروی نہ کرے ۔ یعنی حکم خدا پر حضرت موسیٰ نے اپنی عصا کو پانی پر مارا جس سے انہیں پار اترنے کا راستہ مل گیا ۔ مراد یہ ہے کہ محض اپنی سوچ اور تصورات ہی زندگی میں کامیابی و کامرانی کا ذریعہ نہیں بن سکتے بلکہ یہ امر بھی پیش نظر رکھنا چاہیے کہ کسی معاملے میں حکم خداوندی اور رضائے الہٰی کی نوعیت کیا ہے ۔ خودی سے بہرہ ور ہونے کا یہی طریقہ ہے ۔
—————————
Transliteration
Jurrat Hai To Afkar Ki Dunya Se Guzar Ja
Hain Behar-e-Khudi Mein Abhi Poshida Jazeere
Transcend the intellect if you have courage to do so:
There are islands hidden in the ocean of the self as yet.
Khulte Nahin Iss Qulzam-e-Khamosh Ke Asrar
Jab Tak Tu Iss Zarb-e-Kaleemi Se Na Cheere
The secrets of this silent sea, however, do not yield
Until you cut it with the blow of the Moses’ rod.
————————–