با ل جبر یل - منظو ما ت

ابليس کي عرضداشت

کہتا تھا عزازیل خداوند جہاں سے
پرکالہ آتش ہوئی آدم کی کف خاک

معانی: عزازیل: شیطان کا ایک نام ۔ پرکالہَ آتش: آگ کا پتلا، شیطان ۔ کفِ خاک: مٹی کی مٹھی ۔
مطلب: مغربی دنیا نے سائنس اور صنعت کاری میں جو ترقی کی ہے اقبال اسے محض ظاہری ترقی سمجھتے ہیں کہ ان کے نزدیک یہ ایک ایسی ترقی معکوس ہے جس نے انسان کو روحانی اقدار سے محروم کر کے رکھ دیا ہے ۔ وہ اسے کار شیطانی قرار دیتے ہیں ۔ اس نظم میں انھوں نے شیطان کی زبانی ہی معاشرے کے اس کھوکھلے پن کا اظہار کیا ہے ۔ شیطان ملعون بڑے طنز کے ساتھ بارگاہ خداوندی میں عرض کرتا ہے کہ تو نے تو انسان کو اشرف المخلوقات قرار دیا تھا اور سجدہ نہ کرنے کی پاداش میں مجھے جنت سے نکال پھینکا تھا لیکن اب اس کے کرتوت دیکھ کہ اپنی فتنہ انگیزیوں کے سبب وہ ساری دنیا کو بھسم کرنے کے درپے ہے ۔

جاں لاغر و تن فربہ و ملبوس بدن زیب
دل نزع کی حالت میں ، خرد پختہ و چالاک

معانی: لاغر: کمزور ۔ تن: جسم ۔ فربہ: موٹا ۔ بدن زیب: بدن کو سجانے والا ۔ دل نزع: موت کے قریب ۔
مطلب: اس کی کیفیت یہ ہے کہ بدن تو خوب موٹا تازہ ہے جس پر بھڑکدار لباس زیب تن کرتا ہے لیکن اس داخلی کیفیت ہر خوبی سے محرومی کی ہے البتہ ذہنی طور پر انتہائی چالاک اور عیار ہو چکا ہے کہ ساری دنیا کو انگلیوں پر نچا رکھا ہے ۔

ناپاک جسے کہتی تھی مشرق کی شریعت
مغرب کے فقیہوں کا یہ فتویٰ ہے کہ ہے پاک

معانی: فقیہوں : عالموں ۔
مطلب: مشرقی تہذیب و شریعت نے شراب، جوا اور ہر نوع کی برائی و بدکاری کا حرام قرار دیا ہے ۔ مغرب میں ان کو حلال قرار دے دیا گیا ہے ۔ اس کے اثرات مشرق پر بھی نمودار ہو رہے ہیں جس کے سبب یہاں کے لوگ بھی تمام اخلاقی اور روحانی اقدار سے محروم ہو کر لہو و لعب میں گرفتار ہیں ۔

تجھ کو نہیں معلوم کہ حورانِ بہشتی
ویرانیِ جنت کے تصور سے ہیں غمناک

معانی: حورانِ بہشتی: جنت کی حوریں ۔
مطلب: اے قادر مطلق! کیا تو اس حقیقت سے آگاہ ہے کہ انسان کی بدکاریوں کے سبب حوران بہشت بھی اس نتیجے پر پہنچ کر مغموم و مایوس ہیں کہ ایسے بدکردار لوگوں کے لیے جنت میں کوئی گنجائش نہیں لہذا وہ ویرانی کا شکار ہو کر رہ جائے گی ۔

جمہور کے ابلیس ہیں اربابِ سیاست
باقی نہیں اب میری ضرورت تہِ افلاک

معانی: جمہور: عوام ۔ اربابِ سیاست: سیاست دان ۔ تہِ افلاک: آسمان کے نیچے یعنی زمین پر ۔
مطلب: جہاں تک اس دنیا کے سیاستدانوں کا احوال ہے تو انھوں نے جمہوریت کے نام پر ہر وہ کام شروع کر دیا ہے جو بالعموم مجھ سے منسوب کیا جاتا تھا ۔ وہ قدم قدم پر عوام کو دھوکہ دے رہے ہیں اور اپنے ذاتی مفادات کے لیے ہر ممکن فریب کاری سے کام لے رہے ہیں ۔ تو ہی بتا کہ اب اس دنیا میں میری کیا ضرورت باقی رہ جاتی ہے کہ میری جگہ تو ان لوگوں نے لے لی ہے ۔

—————————–

Transliteration

Kehta Tha Azazeel Khudawand-e-Jahan Se
Par Kala-e-Atish Huwi Adam Ki Kaf-e-Khaak!

Jan Laghar-o-Tan Farba-o-Malboos Badan Zaib
Dil Naza Ki Halat Mein, Khirad Pukhta-o-Chalaak!

Napaak Jise Kehti Thi Mashriq Ki Shariat
Maghrib Ke Faqeehon Ka Ye Fatwa Hai Pak!

What the East’s sacred law made men ab
Tujh Ko Nahin Maloom Ke Hooran-e-Behishti
Weerani-e-Jannat Ke Tasawwar Se Hain Ghamnaak?

Jamhoor Ke Iblees Hain Arbab-e-Siasat
Baqi Nahin Ab Meri Zaroorat Teh-e-Aflak!

————————–

To the Lord of the universe the Devil said:—
A firebrand Adam grows, that pinch of dust
Meager‐souled, plump of flesh, in fine clothes trussed,
Brain ripe and subtle, heart not far from dead.
What the East’s sacred law made men abjure,
The casuist of the West pronounces pure;
Knowest Thou not, the girls of Paradise see
And mourn their gardens turning wilderness?
For fiends its rulers serve the populace:
Beneath the heavens is no more need of me!

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button