Notice: Function _load_textdomain_just_in_time was called incorrectly. Translation loading for the rank-math domain was triggered too early. This is usually an indicator for some code in the plugin or theme running too early. Translations should be loaded at the init action or later. Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 6.7.0.) in /home/u500905684/domains/urdupoetrylibrary.com/public_html/wp-includes/functions.php on line 6114

Notice: Function _load_textdomain_just_in_time was called incorrectly. Translation loading for the rocket domain was triggered too early. This is usually an indicator for some code in the plugin or theme running too early. Translations should be loaded at the init action or later. Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 6.7.0.) in /home/u500905684/domains/urdupoetrylibrary.com/public_html/wp-includes/functions.php on line 6114
Jo Aalim e Ijaad May Hay Sahib e Ijaad
محراب گل افغان کے افکارعلامہ اقبال شاعری

جو عالم ايجاد ميں ہے صاحب ايجاد

جو عالم ایجاد میں ہے صاحبِ ایجاد
ہر دور میں کرتا ہے طواف اس کا زمانہ

معانی: عالم ایجاد: ایجاد کی دنیا ۔ صاحب ایجاد: ایجاد کرنے والا، موجد ۔ طواف: پھیرے لینا، چکر کاٹنا ۔
مطلب: جو شخص ایجاد یعنی نئی نئی چیزیں دریافت کرنے اور بنانے والی دنیا سے تعلق رکھتا ہے اور جسے لوگ ایجاد کا مالک یا نئی نئی چیزوں کو دریافت کرنے والا یا موجد کہتے ہیں ہر زمانہ میں اس کی قدر و منزلت رہی ہے اور زمانہ اس کے پھیرے لیتا رہتا ہے یعنی اہل زمانہ میں وہ مشہور و مقبول رہا ہے ۔

تقلید سے ناکارہ نہ کر اپنی خودی کو
کر اس کی حفاظت کہ یہ گوہر ہے یگانہ

معانی: تقلید: پیروی ۔ ناکارہ: بے کار ۔ خودی: خودآگاہی ۔ گوہر: موتی ۔ یگانہ: بے مثل ۔
مطلب: اے شخص تو بھی نئی نئی چیزیں اور دنیا دریافت کر نے کی طرف دھیان دے ۔ محض اپنے زمانے کی پیروی نہ کر اور اندھا دھند اس کے پیچھے نہ چل ورنہ تیری خودی کا وہ گوہر جو بے مثل ہے بے کار ہو جائے گا ۔

اس قوم کو تجدید کا پیغام مبارک
ہے جس کے تصور میں فقط بزمِ شبانہ

مطلب: جو قوم کبھی راتوں کی عیش و عشرت میں مشغول تھی یعنی لہو و لعب میں مشغول اور بے عمل تھی اب اس کے دل میں بھی نئی دنیا آباد کرنے اور قدیم غلط روایات کی پیروی سے باز آنے کا خیال پیدا ہو گیا ہے ۔ یہ اس لیے نیک فال ہے ۔ خدا کرے وہ بھی اجتہاد کو جدید تقاضوں کے مطابق کرنے سے کام لے کر دوسری ترقی یافتہ قوموں کی صف میں شامل ہو جائے لیکن اس طرح کہ اپنا مرکز عقائدنہ چھوڑے ۔

لیکن مجھے ڈر ہے کہ یہ آوازہَ تجدید
مشرق میں ہے تقلیدِ فرنگی کا زمانہ

معانی: آوازہ: غلغلہ دھوم ۔ تجدید: نئی دنیا آباد کرنا ۔ تقلید فرنگی: اہل مغرب کی پیروی ۔
مطلب: اس سے پہلے شعر میں علامہ نے مشرقی اقوام خصوصاً مسلمانوں کو اس بات پر مبارک باد دی ہے کہ ان کے دلوں میں بھی قدیم زمانے کی اندھا دھند تقلید کی بجائے نیا جہان آباد کرنے اور نئی نئی ترقیاں کرنے کا خیال پیدا ہو رہا ہے لیکن اس مبارک باد کے ساتھ ساتھ یہ تنبیہ بھی کر رہے ہیں کہ یہ ترقی ایسی نہ ہو کہ ہم تہذیب، تمدن، ثقافت وغیرہ میں اہل مغرب کی پیروی کرنے لگیں اور ان کی طرح انسانی اقدار کو برباد کر بیٹھیں ۔ یہ ترقی اور تجدید اس طرز پر ہونی چاہیے کہ اپنی مذہبی اور انسانی اقدار بھی قائم رہیں اور ترقی بھی حاصل ہو جائے

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button