بال جبریل (حصہ دوم)

ہوا نہ زور سے اس کے کوئی گريباں چاک

ہُوا نہ زور سے اس کے کوئی گریباں چاک
اگرچہ مغربیوں کا جنوں بھی تھا چالاک

معانی: مغربیوں کا جنوں : اہل مغرب کا پاگل پن یا جوش ۔ چالاک: ہوشیار، پراثر ۔
مطلب: اس شعر میں اقبال اہل یورپ کے حوالے سے کہتے ہیں کہ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ مغربی دانشور سائنس فلسفہ اور دیگر علوم میں مہارت رکھتے ہیں اور عالمی سطح پر لوگوں پر اثر انداز ہونے کی قوت کے حامل ہیں اس کے باوجود وہ ان کی روح اور ضمیر کو تسخیر نہیں کر سکتے ۔ کہنے کا مقصد یوں ہے کہ یہ صلاحیت مشرقی رہنماؤں کی ہے جو ظاہر کے بجائے باطن کی پاکیزگی کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں ۔

مئے یقین سے ضمیرِ حیات ہے پُرسوز
نصیبِ مدرسہ یارب یہ آبِ آتشناک

معانی: ضمیرِ حیات : زندگی کا ضمیر ۔ آبِ آتشناک: جلا دینے والا پانی یعنی جوش پیدا کرنے والے جذبات ۔
مطلب: یقین محکم کی بدولت حیات انسانی جن اوصاف کی حامل ہے خدا کرے اسی نوع کا یقین محکم ہمارے تعلیمی اداروں کو بھی نصیب ہو اور وہ اس سے استفادہ بھی کر سکیں ۔

عروجِ آدم خاکی کے منتظر ہیں تمام
یہ کہکشاں ، یہ ستارے، یہ نیلگوں افلاک

مطلب: انسان ہر چند کہ خاک سے پیدا ہوا ہے اس کے باوجود اس کی عظمت کا اندازہ اس حقیقت سے ہوتا ہے کہ ستارے، کہکشاں اور نیلی رنگت والے آسمان اس کے عروج اور ترقی کا ہر لمحے مطالعہ کرتے رہتے ہیں ۔ اور اس کا انتظار ہی اب ان کے لیے لازم ہے ۔

یہی زمانہَ حاضر کی کائنات ہے کیا
دماغ روشن و دل تیرہ و نگہ بیباک

مطلب: اس شعر میں اقبال اپنے مشاہدے اور تجربے کی بنیاد پر سوال اٹھاتے ہیں کہ کیا عصر موجود کے پاس یہی اثاثہ رہ گیا ہے کہ انسانی دماغ تو علم سے روشن اور تابندہ ہے لیکن دل میں عدم اعتماد کی تیرگی چھائی ہوئی ہے اور نگاہوں میں بے باکی تو ہے حیا کا فقدان ہے ۔

تو بے بصر ہو تو یہ مانعِ نگاہ بھی ہے
وگرنہ آگ ہے مومن، جہاں خس و خاشاک

مطلب: مسلمانوں سے مخاطب ہو کر اقبال کہتے ہیں کہ تو اگر بینائی سے محروم ہے تو دنیا کے معاملات تجھ پر کھل نہیں سکتے ورنہ امر واقع تو یہ ہے کہ مومن تو ایک ایسی آتش فروزاں کی طرح ہے کہ اس کے بالمقابل دنیا دیکھا جائے تو خس و خاشاک کے مانند ہے اور کون نہیں جانتا کہ آگ خس و خاشاک کو کس طرح بھسم کر کے رکھ دیتی ہے ۔

زمانہ عقل کو سمجھا ہوا ہے مشعلِ راہ
کسے خبر کہ جنوں بھی ہے صاحبِ ادراک

معانی: مشعل راہ: راستے کی شمع ۔ صاحبِ ادراک: سمجھدار ۔
مطلب: دنیا نے تو محض عقل کو حرف آخر سمجھ رکھا ہے حالانکہ انسان میں مردانگی کا جوہر وہ جنوں عطا کرتا ہے جو عقل سے بھی زیادہ قوی ہے ۔

جہاں تمام ہے میراث مردِ مومن کی
مرے کلام پہ حجت ہے نکتہَ لولاک

معانی: نکتہَ لولاک: ایک حدیث قدسی ہے جس کا مفہوم ہے کہ اے رسولﷺ اگر ہم تمہیں پیدا نہ کرتے تو یہ آسمان و زمین بھی پیدا نہ کرتے ۔
مطلب: اور امر واقعہ یہ ہے کہ تمام دنیا تو مرد مومن کا ورثہ ہے اور اس دعویٰ کی تصدیق لولاک سے کی گئی ہے کہ یہ کائنات خدا نے محض حضورِ اکرم کے لیے پیدا کی ہے ۔

———————–

Translation

Huwa Na Zor Se Uss Ke Koi Greban Chaak
Agarcha Maghribiyon  Ka Junoon Bhi Tha Chalaak

Mai-e-Yaqeen Se Zameer-e-Hayat Hai Pursouz
Naseeb-e-Madrasa Ya Rab Ye Aab-e-Atish Naak

Urooj-e-Adam-e-Khaki Ke Mutazir Hain Tamam
Ye Kehkashan, Ye Sitare, Ye Neelgoon aflaak

Yehi Zamana-e-Hazir Ki Kainat Hai Kya
Damagh Roshan-o-Dil Teerah-o-Nigah Bebaak

Tu Be-Basar Ho To Ye Mana’ay Nigah Bhi Hai
Wagarna Aag Hai Momin, Jahan Khs-o-Khashak

Zamana Aqal Ko Samjha Huwa Hai Mashal-e-Rah
Kise Khabar Ke Junoon Bhi Hai Sahib-e-Idraak

oon Jahan Tamam Hai Meeras Mard-e-Momin Ki
Mere Kalam Pe Hujjat Hai Nukta-e-Loulaak

————————————–

Intuition in the West was clever in its power,
But had not the plenitude for absolute abandon.

The quintessence of life is the force of faith supreme—
It is a force denied to all our seats of learning.

The galaxies, the planets, the firmament, are all
Waiting for man’s rise, like a star in heaven.

Brains are bright and hearts are dark and eyes are bold,
Is this the sum and substance of what our age has gained?

The world is a haystack for the fire of the Muslim soul,
But if thou art eyeless, thou canst not find thy way.

To a multitude of men, reason is the guide,
They know not that frenzy has a wisdom of its own.

The world entire is a legacy of the Man of Faith:
I say it on the authority of we would not have created it.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button